بی این ایم کی عالمی مہم: برطانوی و آئرش وزراء سے بلوچستان پر سوالات

274

بلوچ نیشنل موومنٹ  ( بی این ایم ) کے فارن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے عالمی سطح پر رابطہ کاری مہم جاری ہے، جس کا مقصد بلوچستان میں جاری ریاستی جبر، خاص طور پر پرامن سیاسی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن، اور بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنا ہے۔

اسی مہم کے تسلسل میں، بی این ایم نے اقوامِ متحدہ کے نمائندوں سے رابطہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر کارکنان کی گرفتاری پر ایکشن لینے کی اپیل کی۔ 23 مارچ 2025 کو اقوامِ متحدہ کے اسپیشل ریپوٹور برائے ہیومن رائٹس ڈیفینڈرز کو بلوچستان کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری پر آواز بلند کرنے کی درخواست کی گئی۔ اس کے جواب میں اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ نے اپنے تحریری پیغام میں بتایا کہ 26 مارچ کو بلوچستان میں انسانی حقوق کے محافظین کی غیرقانونی حراست کے خلاف ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے۔

بی این ایم کی اس مہم کے نتیجے میں برطانیہ، یورپی یونین اور امریکہ کے متعدد اراکین پارلیمان، سینیٹرز اور یورپی پارلیمان کے اراکین سے رابطے کیے گئے، جن سے بلوچستان میں جاری ریاستی مظالم اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی غیرقانونی حراست پر آواز اٹھانے کی اپیل کی گئی۔

برطانوی رکن پارلیمان انڈریو پیکس نے وزیر برائے مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان، و پاکستان ہمیش فالکنر سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی حراست سے متعلق سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ برطانوی حکومت اس پر کیا اقدامات کر رہی ہے؟ جس کے جواب میں ہمیش فالکنر نے کہا کہ انھیں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ برطانیہ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ ہم ریاستوں پر زور دیتے ہیں کہ ایسی شکایات کی مکمل تحقیقات کریں، مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں، اور متاثرین و ان کے خاندانوں کو انصاف فراہم کریں‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ برطانوی حکومت پاکستان میں جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھے ہوئے ہے۔

ہمیش فالکنر نے بلوچ مظاہرین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ مظاہرین کے ساتھ روا ناروا سلوک کے بارے میں آگاہ ہے اور اس کا مؤقف واضح ہے کہ بغیر سنسرشپ یا دھمکی کے اظہارِ رائے کی آزادی جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔ انھوں نے بتایا کہ برطانوی ہائی کمشنر پاکستان کے وزیر برائے انسانی حقوق و قانون کے ساتھ باقاعدگی سے رابطے میں ہیں، اور ان ملاقاتوں میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

اسی تناظر میں، لیبر پارٹی کی رکن پارلیمان میری ریمر نے بھی اپنے تحریری جواب میں بلوچ عوام کے ساتھ یکجہتی اور بلوچستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا: “میں بلوچستان میں جاری حالات پر گہری تشویش رکھتی ہوں، اور آپ کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ برطانوی حکومت بھی اس صورتحال سے واقف ہے۔”

انھوں نے یاد دلایا کہ 28 نومبر 2024 کو وزیر ہمیش فالکنر نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی مذمت کی تھی، اور ریاستوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کریں اور انصاف فراہم کریں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ 10 دسمبر 2024 کو وزیر ہمیش فالکنر نے واضح کیا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر برطانوی ہائی کمیشن حکومتِ پاکستان سے باقاعدگی سے بات چیت کرتا ہے، جس میں 4 ستمبر اور 19 نومبر کی ملاقاتیں شامل ہیں۔

دوسری طرف، آئرلینڈ میں بھی بلوچ نیشنل موومنٹ کی رابطہ کاری مہم کے اثرات نمایاں نظر آئے۔ آئرش رکن پارلیمان ریچرڈ بوئیڈ بیرٹ نے آئرش وزارت خارجہ سے بلوچستان کی صورتحال پر سوال کیا، خاص طور پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری پر مؤقف جاننے کی کوشش کی۔ ان کے سوال کے جواب میں آئرلینڈ کے نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ سائیمن ہیرس نے کہا: ’’ مجھے بلوچستان میں حالیہ گرفتاریوں اور اس خطے کی بدامنی کا ادراک ہے، جو کئی سالوں سے پرتشدد تنازعات کا شکار رہا ہے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ آئرلینڈ اسلام آباد میں اپنے سفارت خانے کے ذریعے حالات پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے، اور یورپی یونین کے مشن اور دیگر ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ مل کر مؤثر ردعمل کے لیے کام کر رہا ہے۔

سائیمن ہیرس نے کہا کہ آئرلینڈ اظہارِ رائے، پُرامن اجتماع اور سیاسی شرکت کی آزادی جیسے عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کے فروغ و تحفظ کے لیے پرعزم ہے، اور وہ پاکستان کے ساتھ ان امور پر دوطرفہ اور کثیرالطرفہ فورمز میں بات چیت کرتا رہے گا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ نومبر 2024 میں یورپی یونین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے چودھویں مشترکہ کمیشن اجلاس میں انسانی حقوق، جمہوریت اور حکمرانی کے امور پر یورپی یونین نے کئی خدشات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق، جی ایس پی پلس اسکیم کے تحت پاکستان کو حاصل تجارتی مراعات کے تناظر میں بھی ایک کلیدی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

سائیمن ہیرس نے یقین دہانی کرائی کہ ان کا محکمہ اسلام آباد میں آئرش سفارت خانے کے ذریعے یورپی یونین مشن اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر صورتحال کی نگرانی جاری رکھے گا۔