بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج، پولیس اور رسد پہنچانے والی گاڑیوں کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ تنظیم کے ترجمان میجر گہرام بلوچ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کارروائیاں 10 اپریل سے 26 اپریل 2025 کے درمیان کی گئیں ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے 10 اپریل کو دشت کے علاقہ سیاہلو میں قابض پاکستانی فوج کی جانب سے لگائے گئے سرویلنس کیمروں، سولر سسٹم اور دیگر مواصلاتی نظام کو نشانہ بنا کر انہیں نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ بائیس اپریل کی شب تربت کے علاقہ جوسک میں تنظیم کے سرمچاروں نے گشت پر مامور پولیس کی گاڑی کو روک کر آگ لگا دی اور پولیس اہلکار گاڑی چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ تاہم سرمچاروں نے تنظیم کی پالیسی کے مطابق پولیس کو نشانہ نہیں بنایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جبکہ اسی رات گشت کے دوران سرمچاروں کی ٹیم نے ڈی بلوچ میں قائم پولیس تھانے پر حملہ کر کے اس کے املاک کو نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ اسی ہی رات کو سرمچاروں کے ایک اور دستے کا گشت کے دوران تربت کے علاقہ گھنہ میں قابض پاکستانی فوج سے سامنا ہوا جس کے نتیجے میں ان کے مابین جھڑپ ہوا۔ جھڑپ میں دشمن کے کئی فوجیوں کو زخمی ہوئے جس کے نتیجے میں دشمن کی فوج پسپا ہوکر واپس اپنے کیمپ کی طرف لوٹ گئی۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ پچیس اپریل کی رات 11:40 بجے، سرمچاروں نے مند سورو میں ملٹری انٹیلی جنس کی دفتر کے سامنے پہلے سے موجود اہلکاروں کو نشانہ بناکر ہلاک کیا اور اس کے بعد دفتر کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ چھبیس اپریل کے دن دوپہر 12:00 بجے کے قریب بی ایل ایف کے سرمچاروں نے خاران شہر کے وسط میں واقع ایف سی کے مرکزی کیمپ پر گرینیڈ لانچر کے متعدد گولے فائر کیے، جو مقررہ اہداف پر گرے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ جھبیس اپریل کے دن دوپہر 12 بجے کے قریب اپسی کهن اور حمزئی کے درمیان فوجی کیمپ میں سامان لے جانے والی گاڑی کو بم حملے میں نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ گاڑی مالک شفیع محمد عرف شُپک کو گزشتہ کئی ماہ سے وارننگ دی جارہی تھی لیکن اس کے باوجود وہ اس حرکت سے باز نہیں آیا۔ آج انتباہ کے طور پر ان کی ایک گاڑی پر ہلکا حملہ کیا گیا۔ آج ایک بار پھر میڈیا کے ذریعے اعلان کرتے ہیں کہ اگر وہ اب بھی اس پروگرام کا حصہ رہے تو سخت حملہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ ان مختلف کارروائیوں میں قابض پاکستانی فوج اور پولیس کو جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جب کہ سرمچار بحفاظت اپنے محفوظ ٹھکانوں پر پہنچ گئے۔