بلوچ مزاحمت گنتی سے کہیں آگے
تحریر: جمال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب مزاحمت اور خوابوں کو دہشتگردی کہا جانے لگے، تب سوال صرف تعداد کا نہیں، شناخت اور حق کا ہوتا ہے۔ صرف “1500” افراد ریاست کے خلاف ہیں، تو یہ صرف ایک عدد نہیں یہ اُس ناسمجھی، اُس غرور، اور اُس خوف کی علامت ہے جسے ہر عہد کی مزاحمت نے شکست دی ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے آرمی چیف نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں صرف “1500 افراد” ریاست کے خلاف برسرِپیکار ہیں، اور وہ پاکستان آرمی جیسے ادارے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
یہ بیان بظاہر طاقت کا اظہار ہے، مگر درحقیقت خوف کی جھلک بھی رکھتا ہے۔ یہ اُن لوگوں کی بےچینی ہے جو بندوق سے زمین تو چھین سکتے ہیں، مگر خواب نہیں۔
آرمی چیف صاحب، اگر آپ کو لگتا ہے کہ صرف 1500 بلوچ اس ریاست کے خلاف برسرِپیکار ہیں، تو شاید آپ نہ زمین کی دھڑکن سن رہے ہیں، نہ تاریخ کے صفحات پلٹ رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ بلوچ صرف 1500 ہیں، تو آئیے، ہم آپ کو تاریخ کے کچھ سبق یاد دلاتے ہیں۔
1956 میں فیڈل کاسترو، چی گویرا اور ان کے 82 ساتھی ایک کشتی گرانما پر سوار ہو کر کیوبا پہنچے۔ سرکاری فوج نے ان پر حملہ کیا اور صرف 20 کے قریب زندہ بچے۔ کیا وہ ہار گئے؟ نہیں۔ انہوں نے پہاڑوں کا رخ کیا، عوام کا دل جیتا، اور صرف تین سال کے اندر پورے کیوبا کا نقشہ بدل دیا۔
کاسترو کے گوریلاوں نے 40,000 فوجیوں کو شکست دی۔ کیونکہ وہ صرف بندوق سے نہیں لڑرہے تھے، وہ نظریے سے، عوامی حمایت سے، اور ظلم کے خلاف لڑ رہے تھے۔
تو آرمی چیف صاحب، 1500 بلوچ “کافی” نہیں، بہت زیادہ ہیں ویتنام جہاں ننگے پیر کسانوں نے سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، امریکہ دنیا کی سب سے طاقتور فوج لے کر ویتنام پہنچا۔ پانچ لاکھ سے زائد امریکی فوجی، جدید ہتھیار، ہوائی حملے، کیمیکل بمباریاں اور پھر بھی شکست کس کی ہوئی؟
امریکہ کی!
کیوں؟ کیونکہ ویت کانگ جنگجو نظریے سے لیس تھے، عوامی حمایت ان کے ساتھ تھی، اور وہ اپنی مٹی کے لیے مرنے کو تیار تھے۔
امریکی جنرلز کہتے تھے “ہم دشمن کو دیکھ نہیں سکتے، مگر وہ ہمیں ہر طرف سے مار رہے ہیں۔ آج یہی آواز پاکستانی ایوانوں میں بلوچ مزاحمت کے بارے میں سنائی دیتی ہے۔
بلوچ مزاحمت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ بلوچ شاید آپ کے کیمروں میں نظر نہ آئیں،
مگر وہ ہر چوکی کے آس پاس ہیں۔ ہر پہاڑ، ہر درخت، ہر دل میں چھپے ہوئے ہیں۔
بلوچ مزاحمت صرف بندوق برداروں کا ذکر نہیں، یہ ایک زندہ تحریک ہے۔ یہ ان ماؤں کی پکار ہے جن کے بیٹے لاپتہ ہیں، یہ ان بزرگوں کی امید ہے جنہوں نے جیلیں، تشدد اور جبر دیکھا، مگر خواب نہیں چھوڑے۔
آپ ہمیں “1500 دہشتگرد” کہتے ہیں؟
ہمیں کہنے دیجئے، ہم 1500 نہیں، ہم 1500 سالوں کی بغاوت ہیں۔
کیا یہ جنگ آسان ہے؟ نہیں۔
کیا یہ کل ختم ہو جائے گی؟ شاید نہیں۔
مگر کیا یہ جنگ جیتی جائے گی؟
یقیناً۔
کیونکہ آپ کے پاس توپیں ہیں،
اور ہمارے پاس وقت ہے، سچ ہے، زمین ہے،
اور وہ نسل ہے جو غلامی قبول نہیں کرتی۔
ایک دن آئے گا جب بلوچ مزاحمت کی داستان بھی کیوبا، ویتنام اور الجزائر کے انقلابات کے ساتھ پڑھی جائے گی۔ کیونکہ جب قومیں جاگتی ہیں، تو سپر پاورز بھی گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔
یاد رکھو:
تم ہمیں گن سکتے ہو،
مگر کبھی ختم نہیں کر سکتے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں