بلوچ سیاست اور سفید ہاتھی ۔ علی بلوچ

70

بلوچ سیاست اور سفید ہاتھی

تحریر: علی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

اکیسویں صدی کے اس ڈیجیٹلائزڈ دور میں سیاست دو چیزوں کے گرد گھومتی ہے Reality or Optic تمام سربراہان مملکت نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے حقائق سے کوسوں دور صرف آپٹکس کے لیے تصوراتی دنیا میں قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن کا حقائق سے دور دور کوئی واسطہ نہیں بلوچ سیاست بھی ہمیشہ تضاد، اختلاف اور انتشار سے بھرا پڑا ہے اس کی وجوہات نظریاتی اور شخصی اختلافات رہے ہیں۔

اس وقت بلوچ قوم سیاسی اور معاشی طور پر دباؤ کا شکار ہے اور یہ دباؤ ریاست کی طرف سے باقاعدہ دہائیوں پر محیط منصوبے کے تحت منظم طریقے سے قائم کیا ہوا ہے جس کے خلاف بلوچ بحیثیت قوم جدوجہد کرتا آرہا ہے تاکہ اس حصار کو توڑا جاسکے اس دوران تحریکیں اٹھیں عروج تک پہنچیں زوال بھی دیکھے قیادتیں آئیں گئیں عروج و زوال کا سلسلہ یہاں بھی رواں رہا لیکن جو ایک چیز تسلسل کے ساتھ قائم رہی وہ بلوچ قوم کا اس نظام کے خلاف اور بلوچ سرزمین کے ساتھ اس کی بے لوث کمٹمنٹ ہے ان دہائیوں میں بلوچ قوم پر طرح طرح کے مصائب ڈھائے گئے بلوچ سیاسی رہنما، اساتذہ، وکلا، ڈاکٹرز، سوشل ورکرز سمیت معاشرے کے ہر طبقے کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا بلوچ کے معاشی ذرائع محدود کردیئے گئے علم و دانش کے دروازوں پر بندوق بردار پہرے بیٹھائے گئے تاکہ بلوچ کو کمزور کرکے اس کے اعصاب کو توڑا جاسکے بلوچ یہ سب مظالم سہتا رہا لیکن وہ سرزمین بلوچستان کی ملکیت سے دستبردار ہونے سے انکار کرتا رہا جس سے دستبرداری کا مطالبہ ظالم حکمران کرتے رہے ہیں۔

بلوچستان میں بلوچ قومی سیاست ہمیشہ وفاقی سیاست سے منقطع رہی ہے بلوچستان میں سیاست ہمیشہ قوم پرستی کے نام پر ہوئی ہے اور اسی سیاست کو ہی عوامی سطح پر پذیرائی نصیب ہوئی ہے آج بھی قوم پرستی کی سیاست ہی بلوچستان میں واحد مقبول سیاست ہے کیونکہ بلوچ اس طرز سیاست کو قومی شناخت کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔

قوم پرست سیاست نے بھی مختلف ادوار میں مختلف دشواریاں دیکھیں ہیں اس سیاست کے سرکردہ ناموں میں سے کچھ وطن کی خاطر دوران جدوجہد شہید ہوئے کچھ پارلیمنٹ پہنچ گئے تو کچھ خوفزدہ ہو کر یا مفادات کے بوجھ تلے دب کر خاموش ہوئے باقی جو رہ گئے تھے انہوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کرکے پہاڑوں کا رخ کرلیا یہ ماضی کے یار حال کے سیاسی ناقد اور مخالف بن گئے پھر ایک وقت آیا کہ ان دو سیاسی نظریات نے ایک دوسرے کے خلاف ایکسٹریم پوزیشنیں لے لیں ایک دوسرے کو غدار جیسے القابات سے نواز کر ناقابل برداشت کہتے رہے اور اس کے نقصانات اس قوم نے اپنے بہترین سیاسی و سماجی دماغوں کو کھو کر چکائی۔

آج بلوچستان میں ریاست نے پرامن سیاسی جدوجہد کے لیے اسپیس تقریبا تقریبا ختم کی ہوئی ہے کیونکہ ریاست سمجھتی ہے کہ سیاستدان کوئی بھی ہو لیکن اگر وہ قوم پرست سیاست کا علم بردار ہے وہ وفاق اور مملکت پاکستان کے مفادات کا دشمن ہے اور اس طرز سیاست کی اس ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے ریاست نے تمام قوم پرست سیاست سے وابستہ لوگوں کو آہستہ آہستہ سائیڈ لائن کرنا شروع کردیا پھر ان کی جگہ جرائم پیشہ افراد، ڈیتھ اسکواڈ اور منشیات فروشوں کو مخبری اور بیشمار دولت کے عوض ہم پر جبرا مسلط کرنا شروع کردیا آج تقریبا تمام بلوچستان اسمبلی انہی مسلط شدہ چہروں سے بھر دیا گیا ہے۔

پھر ان کرداروں نے ریاستی سرپرستی میں بلوچ سماج کے اندر وہ وہ مظالم ڈھائے جن کو سنتے ہی انسانی روح کانپ جائے انہی مظالم میں ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں ملک ناز کا قتل ، ایف سی کے ہاتھوں حیات بلوچ کا قتل اور سی ٹی ڈی کے ہاتھوں بالاچ کا قتل شامل ہیں اس قتل و غارت کے خلاف بلوچ عوام نے احتجاج کرنا شروع کیا پھر انہی احتجاجی مظاہروں میں سے BYC وجود میں آئی بلوچ نوجوانوں نے اس پلیٹ فارم پر ایک نئی جدوجہد کا آغاز کردیا اور اس بار اس تحریک کا کمان بلوچ نوجوانوں نے سنبھالی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چند لوگ ہزاروں پھر لاکھوں میں تبدیل ہوئے اور بلوچستان کے گلے کوچے ریاستی مظالم کے خلاف بلند نعروں کی گھونج سے سیراب ہوتا رہا اس دوران مھرنگ کی شکل میں بلوچ نوجوانوں کو ایک نڈر رہنما نصیب ہوئی میں نے مھرنگ کے لیے نوجوانوں کی آنکھوں میں نئی امید اور بزرگوں میں بے لوث محبت دیکھا۔

آج ریاست کے کرتوتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ریاست BYC کو ختم کرنا چاہتی یے تاکہ ریاست بلوچستان میں اپنی سیاسی، معاشی مفادات کو تحفظ فراہم کرسکے جن کو BYC سے شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں پہلے وہ اس کریک ڈاؤن کے زریعے انہیں ڈرانا چاہتی ہیں پھر انہیں اکسانا چاہتے ہیں تاکہ وہ بی وائی سی کی قیادت اس کریک ڈاؤن کو مزید وسیع کرنے کے لیے انہیں کوئی موقع فراہم کردیں جس میں ریاست کو فلحال ناکامی کا سامنا ہے وہ ہر طرح کا پروپگنڈا اپنا رہے ہیں کیونکہ تمام ریاستی ادارے بشمول پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا اور بیوروکریسی اس وقت بندوق کے سامنے سر نگوں ہیں آج BYC کے تمام مرکزی لیڈران بشمول مھرنگ بلوچ کے پابند سلاسل ہیں۔

اس ریاستی کریک ڈاؤن کے خلاف بی این پی مینگل کے سربراہ اختر جان مینگل نے وڈھ سے لے کر کوئٹہ تک ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ان کی تنظیم کے خلاف بھی کریک ڈاؤن اور پروپیگنڈے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے تاکہ اس لانگ مارچ کو ناکام بنایا جاسکے ریاست جو کررہی ہے سو کررہی ہے لیکن ان سب میں ایک طبقہ وہ بھی ہے جس کو آپ بلوچ سیاست کے سخت گیر کہہ سکتے ہیں جو ہر عمل اور ہر فرد کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دیکھنا بھی چاہیے کیونکہ سیاست میں کوئی عمل فی سبیل اللہ نہیں ہوتا ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے یا اس سے اس تنظیم یا فرد کا کوئی مفاد لازمی وابستہ ہوتا ہے لیکن ہر عمل اور ہر فرد پر شک کرنا یا پھر اس عمل کو اس لیے رد کرنا کہ آپ کے من پسند لوگ نہیں کررہے یا مند پسند طریقہ کار نہیں اپنایا جارہا تو یہ بذات خود ایک نہایت ہی غیر سیاسی رویہ ہے۔

بلوچستان میں کبھی بھی پارلیمانی سیاستدانوں اور آزادی پسندوں کے درمیان قومی سطح پر دلائل کے ساتھ منطقی گفت و نشید کبھی ہوئے نہیں ہیں جس میں دونوں فریقین بیٹھ کر اپنی اپنی باتیں منتق اور افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کو منوانے کی کوشش کریں پھر قوم کو فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوتا کہ وہ کس کے دلائل اور منتق کے ساتھ اتفاق رکھتے ہے آزادی پسند پاکستان کو قابض سمجھتے ہیں اور بلوچستان کی ایک آزاد حیثیت کی بحالی سے کم پر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں دوسری جانب پارلیمانی سیاستدان زمینی حقائق کے ساتھ سمجھوتہ کرکے اس کو قبول کرکے بلوچ کی سیاسی، سماجی اور معاشی بہتری کے دعویدار ہیں دونوں فریقین کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد موجود ہے اب اس مسئلے کو کیسے سلجھایا جائے کہ کون اصل میں بلوچ قوم کے نمائندے ہیں یہ تاج کس فریق کے سر سجھایا جائے یہ کون طے کریں گا ؟

کسی بھی قوم کے تمام طبقات کبھی بھی ایک طرح سے سوچ ہی نہیں سکتے نہ ہی کبھی ایک جماعت یا ایک نظریے پر متفق ہوسکتے ہیں یہ ناممکنات میں سے ہے لیکن دنیا بھر میں مشترکہ مقاصد کے نام پر مختلف پارٹیاں یا نظریات کے لوگ آپس میں مل بیٹھ کر کچھ نکات پر اتفاق رائے قائم کرکے اتحادی بن جاتے ہیں جو ان متفقہ نکات کے حصول کے لیے مشترکہ جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔

ہم یا تو اپنے مخالف فریق کی بحیثیت بلوچ اس کا اسٹیٹس ہی ختم کردیں اور اس کو غیر بلوچ کہہ کر ان سے تمام سیاسی سماجی رشتے توڑ دیں اگر یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے تو اس فریق کے ساتھ موجود عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے جامع سیاسی حکمت عملی اپنائیں تاکہ اس عوام کو اپنی جانب راغب کرکے اس فر کو سیاسی طور پر تنہا کردیں اگر یہ دونوں نہیں کرسکتے تو دونوں کو ایک مشترکہ مقصد کے لیے اکٹھے ہو کر اس عوام کی خاطر جس کی بہتری کے دونوں دعویدار ہیں مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے آج بلوچستان میں انسانی زندگی اجیرن بن چکی ہے سیاسی، معاشی، علمی، فنی سمیت ہر طبقہ زیر عتاب ہے اگر دونوں فریقین اس سفید ہاتھی جس کو عرف عام میں عسکری اسٹبلشمنٹ کہتے ہیں اس سفید ہاتھی کو پیچھے دھکیلنے، اس سے اپنا کھویا ہوا سیاسی، سماجی اور معاشی اسپیس واپس لینے، اس کے قبضے کی گرفت کو مزید کمزور کرنے، بلوچ عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے، جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں، ساحل و وسائل کی لوٹ مار کے روک تھام جیسے نکات پر اتفاق کرکے مشترکہ جدوجہد کرنے پر اتفاق کریں تو اس میں کیا برائی ہے ؟

اس ریاست میں آئینی قانونی حقوق نام کی کوئی شہ موجود نہیں ہے یہاں ایک ادارہ آئین و قانون، عدلیہ و انصاف، ذرائع ابلاغ، پارلیمنٹ اور بیوروکریسی سمیت ہر چیز پر قابض ہے اس کو مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو عوامی قوت کے ساتھ ساتھ طاقت بھی چاہیے آج BYC کے پاس عوامی قوت تو موجود ہے لیکن BYC کے کارکنان اور لیڈرشپ کے پاس مالی اور ادارہ جاتی طاقت موجود نہیں ہے ان لیڈران کے پاس شاید وکیل کرنے کے بھی پیسے نہ ہوں کیونکہ وہ سب غریب گھرانوں سے وابستہ زیر تعلیم یا نوکری پیشہ نوجوان ہیں جن کو کبھی بھی ریاست اٹھا سکتی ہے تشدد کا نشانہ بناسکتی ہے لیکن پارلیمانی پارٹیوں کے پاس عوامی حمایتشاید اتنی تو نہیں لیکن ان کے پاس مالی وسائل اور ادارہ جاتی طاقت ضرور ہے وہ مہنگے وکیل کرسکتے ہیں وہ بیوروکریسی میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں وہ دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کو سپانسر کرسکتے ہیں ریاست ان کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سو بار سوچے گی اگر یہ عوامی حمایت اور ادارہ جاتی طاقت یکجاہ ہوں تو ریاست کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے اس اتحاد کے زریعے دونوں فریقین اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ، معاشی اور سماجی اسپیس واپس لے سکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں