بلوچ رہنماؤں کی گرفتاری پر عالمی ردعمل: اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو خط

503

20 عالمی تنظیموں، گریٹا تھنبرگ اور برطانوی رکن پارلیمنٹ جان میکڈونل کا مشترکہ مطالبہ: بلوچ نسل کشی بند کی جائے، گرفتار رہنماؤں کو رہا کیا جائے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما صبیحہ بلوچ نے سوشل میڈیا پر ایک اہم بین الاقوامی پیش رفت سے آگاہ کیا ہے، ان کے مطابق دنیا بھر کی 20 تنظیموں اور کے ساتھ ساتھ معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور برطانوی رکن پارلیمنٹ جان میکڈونل نے ایک اجتماعی خط پر دستخط کیے ہیں، جو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، وولکر تُرک کو ارسال کیا گیا ہے۔

اس خط میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کو بلوچ عوام کے خلاف جاری ریاستی جبر اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرائے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار اراکین کی فوری رہائی کے لیے فوری مداخلت کرے۔

خط میں اٹھائے گئے اہم نکات:

خط میں 21 مارچ کو کوئٹہ میں ایک پرامن دھرنے پر پاکستانی سیکورٹی فورسز کے پرتشدد حملے کی مذمت کی گئی ہے، جس میں کم از کم تین افراد، جن میں ایک کمسن بچہ بھی شامل تھا، شہید اور متعدد مظاہرین زخمی ہوئے۔

مظاہرین جبری گمشدہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے، مگر ان پر لاٹھیاں، آنسو گیس اور گرفتاریوں کے ذریعے جواب دیا گیا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ان گرفتار شدگان میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں، جو جبری گمشدگیوں اور بلوچ عوام کے خلاف ریاستی مظالم کے خلاف ایک مضبوط آواز ہیں، ان کی صحت جیل میں غیر انسانی سلوک، ناقص خوراک اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث تیزی سے بگڑ رہی ہے۔

نگرانی کے کیمرے ان کے سیل کے باہر اور واش روم کے قریب نصب کیے گئے ہیں جو ان کی پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزی ہے، ان کا قید خانہ خفیہ اداروں کے کنٹرول میں ہے اور ان کے خاندان کو ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی جس سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔

خط میں سمی دین بلوچ کی کراچی میں گرفتاری اور ہراسانی کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جنہیں جھوٹے الزامات کے تحت دو بار گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں یکم اپریل کو رہا کیا گیا خط کے مطابق اس دوران متعدد دیگر افراد بھی گرفتار کیے جا چکے ہیں یا جبری طور پر لاپتہ ہیں۔

بلوچستان میں ریاستی جبر اور عالمی خاموشی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان بھر میں عوام ریاستی تشدد کے باوجود مسلسل سڑکوں پر موجود ہیں اور اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکاری ہیں، مگر پاکستانی ریاست عالمی طاقتوں کی خاموش حمایت سے ان احتجاجات کا جواب مزید تشدد گرفتاریوں اور جبر سے دے رہی ہے جو صرف مظاہرین پر نہیں بلکہ انسانی وقار اور بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔

یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کوئٹہ میں حملہ کوئی تنہا واقعہ نہیں بلکہ بلوچ عوام کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری ریاستی پالیسی کا حصہ ہے 1948 میں بلوچستان کے جبری الحاق کے بعد ریاست نے قبضے عسکریت اور نسل کشی کی پالیسی اپنائی ہے جس کے تحت ہزاروں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں دستاویزی طور پر ثابت ہو چکی ہیں۔

ریاستی انسداد بغاوت حکمت عملی میں اندھا دھند بمباری، معاشی ناکہ بندیاں، اور بنیادی حقوق کی منظم خلاف ورزیاں شامل ہیں۔

قدرتی وسائل کے ریاستی و غیر ملکی استحصال نے بلوچ عوام کو شدید غربت اور حاشیے پر دھکیل دیا ہے اندرونی نوآبادیاتی نظام اور ساختیاتی تشدد نے بلوچستان کو دنیا کے سب سے زیادہ عسکری اور مظلوم علاقوں میں تبدیل کر دیا ہے۔

بین الاقوامی مطالبات:

خط کے آخر میں دستخط کنندگان نے بلوچ عوام اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے درج ذیل مطالبات پیش کیے:
• ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبوں بلوچ، سبغت اللہ بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبگر بلوچ، اور دیگر تمام گرفتار کارکنان کی فوری رہائی۔
• جبری گمشدگیوں اور ریاستی تشدد کا خاتمہ۔
• پاکستانی فوج کا بلوچستان سے مکمل انخلاء کا مطالبہ شامل ہے۔