بلوچستان کی دو اہم شاہراہیں 10 روز سے بند، تاجروں کو کروڑوں کا نقصان

744

بلوچستان میں دو اہم قومی شاہراہوں کی گذشتہ 10 روز سے بندش نے عوام، تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ٹرانسپورٹرز اور کاروباری طبقے کو یومیہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر محمد ایوب مریانی کا کہنا ہے کہ شاہراہوں کی بندش کے باعث تاجروں کو صرف کنٹینرز کے ڈیمریج چارجز کی مد میں روزانہ ایک لاکھ 20 ہزار امریکی ڈالر (تقریباً تین کروڑ 36 لاکھ روپے) کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ دیگر مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی جانب سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دیگر خواتین رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف 28 مارچ کو وڈھ سے کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا تھا، تاہم حکومت نے مظاہرین کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔

بی این پی نے مستونگ میں لکپاس کے مقام پر دو بڑی اہم شاہراہوں کے سنگم پر دھرنا دیا ہے۔ حکومت نے بھی لانگ مارچ کے شرکا کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے لکپاس ٹنل میں کنٹینرز کھڑے کرکے اور خندقیں کھود کر راستے بند کر رکھے ہیں۔

اس احتجاجی دھرنے اور حکومتی رکاوٹوں کی وجہ سے دو اہم شاہراہیں 28 مارچ کی رات سے بند ہیں جن میں پاکستان کو ایران سے ملانے والی شاہراہ این 40 اور کوئٹہ کو پاکستان کے سب سے بڑے اور تجارتی شہر کراچی سے ملانے والی شاہراہ این 25 شامل ہیں۔

کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر ایوب مریانی نے کا کہنا ہے کہ ’این 40 شاہراہ کی بندش سے ایران کی سرحد پر 1200 سے زائد مال بردار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں جن میں 847 باؤزرز بھی شامل ہیں، جو ایل پی جی اور پیٹرولیم مصنوعات لے کر پاکستان آ رہی تھیں۔ ہر گاڑی پر روزانہ تقریباً 100 ڈالر کے کنٹینر ڈیمریج چارجز عائد ہو رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کوئٹہ میں این ایل سی ڈرائی پورٹ پر ایران جانے والی آلو اور چاول سے بھری 200 گاڑیاں بھی کھڑی ہیں جن میں موجود سامان جلد خراب ہونے والا ہے۔ ان اشیا کو مقامی مارکیٹ میں فروخت بھی ممکن نہیں کیونکہ طلب نہ ہونے کی وجہ سے یہاں قیمتیں بہت کم ہیں۔‘

بلوچستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک حاجی مظفر علی لہڑی کا کہنا ہے کہ بدامنی اور راستوں کی بندش سے ٹرانسپورٹ کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔

ان کے مطابق ’گذشتہ تین ماہ سے ہمارا کاروبار متاثر ہے اور گذشتہ 10 دنوں سے تو مکمل طور پر بند ہے۔ ‘

حاجی مظفر علی لہڑی کا کہنا تھا کہ ’مستونگ سے گزرنے والا اور کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والا راستہ سب سے مختصر اور اہم ہے۔ یہاں سے ہماری روزانہ 12 سے 15 گاڑیاں چلتی تھیں لیکن اب صرف دو سے تین گاڑیاں سبی، جیکب آباد، سکھر اور اندرون سندھ سے گزرنے والے متبادل راستے سے جا رہی ہیں جو طویل اور مہنگا پڑتا ہے۔ اس روٹ پر 200 لیٹر اضافی ڈیزل استعمال ہوتا ہے اور کرایہ بھی تقریباً دو ہزار روپے بڑھ گیا ہے، اس لیے مسافر اس روٹ پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔‘

آل کوئٹہ تفتان بس یونین کے صدر حاجی ملک شاہ جمالدینی نے بتایا کہ کوئٹہ سے نوشکی، دالبندین، نوکنڈی، تفتان، ماشکیل اور خاران کے لیے روزانہ 100 سے زائد بسیں اور ویگن چلتی تھیں جو اب گذشتہ 10 دنوں سے کھڑی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بیشتر بس مالکان نے قرض لے کر تین سے ساڑھے تین کروڑ روپے کی ایک ایک بس خریدی ہے اور انہیں ماہانہ پانچ سے آٹھ لاکھ روپے تک کی قسطیں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بس اڈوں کے کرایے، گاڑیوں کی مرمت اور عملے کی تنخواہیں بھی اب ٹرانسپورٹرز پر بوجھ بن گئی ہیں۔‘

’ہم جس روٹ پر ٹرانسپورٹ چلاتے ہیں وہ دور دراز علاقے ہیں جہاں سے لوگ علاج معالجے، تعلیم اور دوسری بنیادی ضروریات کے لیے کوئٹہ آتے ہیں لیکن گذشتہ 10 دنوں سے مریض بھی سفر نہیں کر پا رہے جس سے عام مسافر سخت مشکلات کا شکار ہیں۔‘

تاجر رہنما ایوب مریانی کا کہنا ہے کہ شاہراہوں کی بندش نہ صرف مقامی بلکہ ملکی اور علاقائی تجارت پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے۔ لاکھوں افراد کا روزگار متاثر ہے جبکہ تاجروں کو بھاری مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر راستے کھلوائے اور جاری احتجاج کا پرامن حل نکالے۔