بلوچستان کی جنگ نسل یا مذہب کی نہیں، آزادی کی ہے۔ براس

159

بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نے اپنے ایک اہم اعلامیے میں کہا ہے کہ بلوچ قومی مزاحمت کسی مخصوص قوم، نسل یا مذہب کے خلاف نہیں، بلکہ ایک قابض ریاست اور اس کے استحصالی نظام کے خلاف ایک اصولی جنگ ہے۔ براس نے یہ مؤقف دو پنجابی باشندوں کی رہائی کے تناظر میں دیا، جنہیں حال ہی میں تنظیم کی ایک کارروائی کے دوران بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے درینگڑھ سے حراست میں لیا گیا تھا۔

تنظیم کے ترجمان بلوچ خان کا کہنا ہے کہ سرمچاروں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے دو پنجابی افراد، نذیر احمد ولد غلام حسین ساکن اٹک پنجاب اورظفر اقبال ولد محمد زمان ساکن اٹک پنجاب کو مورخہ ۲۹ اپریل کو مکمل تحفظ اور انسانی سلوک کے ساتھ بحفاظت رہا کیا گیا۔ ان افراد کی گرفتاری براس کے ایک کاروائی کے دوران بلوچستان کے علاقے درینگڑھ مستونگ میں عمل میں آئی تھی، تاہم ابتدائی تفتیش میں واضح ہوا کہ ان کا براہِ راست کوئی تعلق ریاستی اداروں، فوج یا انٹیلی جنس سے نہیں۔ بلوچ تحریک کی اصولی پالیسیوں کے مطابق، ہم نے ان افراد کو ان کی قومیت، زبان یا شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنانے کے بجائے انسانی اور انقلابی اقدار کو مقدم جانا، اور آج انہیں عزت واحترام کے ساتھ رہا کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام براس کے اس اصولی مؤقف کی توثیق ہے کہ ہماری جنگ کسی قوم یا مذہب کے عام افراد کے خلاف نہیں، بلکہ ایک قابض ریاست اور اس کے استحصالی نظام کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) ایک بار پھر دنیا پر واضح کرتا ہے کہ بلوچ قومی مزاحمت کی بنیاد نسل، مذہب یا کسی تعصب پر نہیں، بلکہ اپنی سرزمین کی دفاع اور اپنی آزادی کے ناقابل تنسیخ حق پر ہے۔ دشمن ریاست کی جانب سے تحریک آزادی کو نسل پرستانہ رنگ دینے کی کوششیں نہ صرف پروپگنڈہ پر مبنی ہیں بلکہ دشمن کی اخلاقی شکست کا اعتراف بھی ہیں۔ بلوچ سرمچار اپنی جنگ قابض کے خلاف لڑرہے ہیں، نہ کہ کسی قوم یا مذہب کے عام لوگوں کے خلاف۔

ترجمان نے کہا کہ براس، بطور ایک متحدہ آزادی پسند محاذ، اس امر کو ایک بار پھر واضح کرنا چاہتا ہے کہ بلوچ جہدکاروں کی تمام تر عسکری سرگرمیاں صرف اور صرف قابض پاکستانی ریاست اور اس کے جبر کے خلاف ہیں۔ ہماری کارروائیاں دشمن فوج، انٹیلی جنس اداروں، فوجی و جاسوسی تنصیبات، استحصالی پروجیکٹس اور دشمن کے سہولت کاروں تک محدود ہیں، نہ کہ کسی ایک مخصوص قوم کے عوام کے خلاف۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں دشمن ریاست کی جانب سے ایک منظم پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے، جس کا مقصد بلوچ آزادی پسند تحریک کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنا ہے۔ دشمن اس پروپیگنڈے کے ذریعے بلوچ سرمچاروں کی جدوجہد کو نسلی نفرت پر مبنی کارروائیوں کے طور پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بلوچ سرمچاروں نے ہمیشہ بے گناہ شہریوں کے تحفظ کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھا ہے۔ جس کی زندہ مثالیں حالیہ مہینوں نوشکی، اورماڑہ اور راڑشم میں براس کی کاروائیوں کے دوران عام پنجابیوں کی شناخت کے بعد انہیں بحفاظت رہا کرنا ہے، اسی طرح اسکی ایک مثال اتحادی تنظیم بی ایل اے کا جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے کے دوران سامنے آتی ہے، جہاں پنجابی شناخت رکھنے والے عام شہریوں کو محض شناخت یا نسلی بنیاد پر نشانہ بنانے کے بجائے انہیں بخیریت چھوڑ دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے برعکس، پاکستانی فوج نے ہمیشہ بلوچ عوام کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا ہے۔ خواتین، بزرگوں اور بچوں کو چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھروں سے اٹھایا گیا، شہید کیا گیا، اور گمشدہ کیا گیا۔ دشمن کی یہ ریاستی دہشت گردی نہ صرف بلوچوں کے خلاف بلکہ پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست نے جب میدانِ جنگ میں بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں پے در پے ذلت آمیز شکستیں کھائیں، تو اس نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہے جہاں جعلی تنظیمیں تشکیل دے کر، سرنڈر شدہ ایجنٹوں کے ذریعے عام پنجابیوں کو نشانہ بنواکر، اس کا الزام بلوچ آزادی پسند تنظیموں پر عائد کیا جاتا ہے۔ اس سازش کا ایک واضح اور حالیہ مظاہرہ مغربی بلوچستان کے علاقے مہرستان مگس میں دیکھنے میں آیا، جہاں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے سرفراز بنگلزئی جیسے سرنڈر شدہ شخص کو استعمال کرکے عام پنجابی شہریوں کے قتل کرایا۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچ قومی آزادی کی جنگ ایک فکری، اخلاقی اور سیاسی تحریک ہے، جو سچائی، قربانی اور عوامی حمایت کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ براس ایک بار پھر اپنے تمام سرمچاروں، ہمدردوں اور قوم کو یقین دلاتا ہے کہ ہماری جدوجہد کا ہر قدم، ہر قربانی اور ہر مزاحمتی عمل ایک اعلیٰ اخلاقی نصب العین کے تابع ہے۔ ہم ایک قوم کی حیثیت سے اپنی آزادی چاہتے ہیں، نہ کہ کسی قوم، نسل یا مذہب کے عام انسانوں کے خلاف نفرت یا دشمنی پر مبنی کوئی انتقامی ایجنڈا رکھتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ براس کا یہ بیان ان تمام افراد کے لیے بھی ہے جو ماضی میں کسی مجبوری، کمزوری یا ذاتی مصلحت کے تحت دشمن ریاست کے ساتھ تعاون پر مجبور ہوئے۔ بلوچ قومی آزادی کی تحریک درگزر اور انقلابی تطہیر کا دروازہ کھلا رکھتی ہے۔ جو افراد اپنی لغزشوں کا سچا اعتراف کرتے ہیں، دشمن سے اپنی وابستگیوں کو توڑ کر دوبارہ قوم کی خدمت اور قربانی کے عہد کے ساتھ لوٹنا چاہتے ہیں، ان کے لیے تحریک کے دروازے بند نہیں۔ لیکن شرط یہی ہے کہ توبہ خلوص نیت سے ہو، اور ان کی آئندہ کی زندگی اپنے عمل سے تحریکِ آزادی کی سچائی کا گواہ بنے۔ قوم اُنہیں معاف کر سکتی ہے جو دل و جان سے اپنی مٹی کے قرض کا کفارہ ادا کرنے کا عزم کریں۔

انہوں نے کہا کہ آخر میں، براس دنیا کی تمام آزادی پسند اقوام، انسانی حقوق کے اداروں اور باشعور افراد کو آگاہ کرنا چاہتی ہے کہ وہ بلوچ تحریک کو پاکستان کے پروپیگنڈے کی عینک سے نہ دیکھیں۔ بلوچستان میں جاری جدوجہد ایک تاریخی قوم کی بقا، اپنی سرزمین پر اپنے حق کے لیے لڑی جانے والی ایک جائز اور اصولی جنگ ہے۔ ہم ہر اس آواز کا خیرمقدم کرتے ہیں جو انصاف، آزادی اور انسانیت کے اصولوں پر یقین رکھتی ہے۔