بلوچستان کا مسئلہ احساس محرومی نہیں بلکہ احساس غلامی ہے۔ بی ایس او (پجار)

51

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنایزشن (پجار) وحدت بلوچستان کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان، جسے قدرت نے سونے، تانبے، گیس، کوئلے اور دیگر قیمتی معدنیات سے نوازا ہے، آج اپنے ہی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی المناک داستان بن چکا ہے۔ یہاں کے عوام کے پاس غربت، بے روزگاری، اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے سوا کچھ نہیں، جبکہ ان کے پیروں تلے دفن خزانے بیرونی سرمایہ داروں اور ریاستی اتحادیوں کی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ کیا یہ وہی ”ترقی“ ہے جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے

انہوں نے کہاکہ ریکوڈک اور سیندھک جیسے علاقوں میں سونے اور تانبے کے ذخائر کا تخمینہ 65 ارب ڈالر سے زائد ہے، مگر مقامی لوگ پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔ گوادر جیسے ترقی کے دعوؤں والے شہر میں عوام کو پانی کے لیے ٹینکروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جبکہ معدنیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ غیرملکی کمپنیوں اور وفاقی خزانے میں منتقل ہو جاتا ہے ۔ یہ استحصال صرف معاشی نہیں، بلکہ ایک منظم ناانصافی ہے جس میں مقامی آبادی کو زہریلے پانی، آلودہ فضاء، اور بنجر زمینیں دے کر ان کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔

مزید کہاکہ بلوچستان کا مسئلہ محض احساسِ محرومی نہیں، بلکہ احساسِ غلامی ہے۔ 1948 کے الحاق سے لے کر آج تک، بلوچ عوام کو اپنے وسائل پر حقِ ملکیت سے محروم رکھا گیا ہے۔ ریاستی پالیسیاں انہیں اپنی ہی زمین پر اجنبی بنا رہی ہیں جن میں ریکوڈک معاہدے میں بلوچستان کو صرف 25% آمدنی دی گئی، جبکہ 75% غیرملکی کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا ۔ یہ وہی “سوچی سمجھی غلامی” ہے جسے طاقت کے بل پر تادیر قائم نہیں رکھا جا سکتا۔

انہوں نے کہاکہ نوجوانوں کو ”مایوس“ کہنا حقیقت سے فرار ہے۔ وہ مشتعل ہیں کیونکہ انہیں روزگار کے بجائے لاپتہ ہونے کا خوف، تعلیم کے بجائے فوجی آپریشنز، اور ترقی کے بجائے قبرستان مل رہے ہیں۔ ان کی آواز کو ”پندرہ سو لوگوں کا جتھا“ قرار دینا یا ایک “ایس ایچ او” کی مار کہنا حالات سے مکمل ناواقفیت اور بد ترین حماقت ہے۔ یہ نوجوان بلوچستان کے ہر گھر کی نمائندگی کرتے ہیں، جو اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔

بیان میں کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے نام پر گوادر کو ”میگا سٹی“ بنانے کے دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ آنکڑا ڈیم خشک ہو چکا ہے، اور حکومتی وعدے کاغذی ہو کر رہ گئے ہیں۔ جبکہ گوادر پورٹ کی تعمیر سے مقامی ماہی گیروں کے روزگار چھینے جا رہے ہیں۔