بلوچ ویمن فورم (BWF) کی مرکزی ترجمان نے جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک نہایت ہی تشویشناک سطح پر پہنچ چکی ہیں جن میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، جعلی مقابلے اور قاتلانہ حملے شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف ایک ہفتے کے دوران ان واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو بحیثیت قوم بلوچ عوام کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ 7 اپریل کو ضلع بارکھان کے علاقے موہمہ سمند خان میں تین نوجوانوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پھینکی گئیں جن کی شناخت پہلے سے جبری طور پر لاپتہ افراد حق نواز بزدار گل زمان بزدار اور شیرو بزدار کے طور پر ہوئی۔ تینوں کا تعلق موسیٰ خیل سے تھا۔ ان میں سے حق نواز کو 5 اپریل کو ان کے گھر سے سیکیورٹی فورسز نے اٹھایا تھا جب کہ شیرو بزدار 9 ماہ قبل جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے۔ بلوچ وومن فورم نے ان قتلوں کو ماورائے عدالت قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور بلوچستان میں سیکیورٹی اداروں کی غیر آئینی کارروائیوں کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
ترجمان نے کہا کہ 4 اپریل کو پسنی سے 9 ویں جماعت کا طالب علم ساحل گلاب اغواء ہوا جس کی تشدد زدہ لاش بعد ازاں پھینکی گئی۔ بلوچ وومن فورم کے مطابق اس واقعے میں مبینہ طور پر مقامی اسکواڈ کا ہاتھ ہے جو ان دنوں مکران میں بلوچ نسل کش پالیسیوں میں سرگرم ہیں۔ تنظیم نے اس کم سن طالب علم کے قتل کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے فوری کارروائی اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ بلیدہ کے علاقے میں شکار کے لیے جانے والے دو کم عمر نوجوان محراب ولد رحم دل (13 سال) اور خان محمد ولد ہیبتان (17 سال) کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا اور بعد ازاں انہیں دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلے میں مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔ ان کی لاشیں اب تک لواحقین کے حوالے نہیں کی گئیں۔ بلوچ وومن فورم نے اس واقعے کو انتہائی افسوسناک قرار دیا اور لاشوں کی فوری حوالگی کے ساتھ ساتھ قاتلوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
خضدار میں بھی 5 اپریل کو چار لاشیں اسپتال لائی گئیں جنہیں جعلی مقابلے میں مارے جانے والے افراد قرار دیا گیا۔ ان میں سے ایک کی شناخت عبد المالک بلوچ کے طور پر ہوئی جو 11 اکتوبر 2024 کو تربت سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے۔ ان کے اہل خانہ نے کئی بار احتجاج بھی کیا تھا لیکن اب ان کی لاش سامنے آئی۔ دیگر تین افراد ظہور بلوچ، شاہ نواز اور حبیب. کے بارے میں بھی خدشہ ہے کہ وہ بھی جبری گمشدگی کا شکار تھے۔ فورم نے ان تمام واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
مرکزی ترجمان نے کہا کہ 8 اپریل کو تربت میں پسنی کے رہائشی 17 سالہ طالب علم رحیم بلوچ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جب وہ ٹیوشن سے واپس آ رہا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ حملے میں بچ گیا۔ بیان میں بتایا گیا کہ اس سے قبل تربت میں سر شریف ذاکر پر بھی قاتلانہ حملہ کیا جا چکا ہے۔ بلوچ وومن فورم نے ان حملوں کو بلوچ نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات دراصل بلوچ قوم کی فکری بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش ہیں۔
بلوچ وومن فورم نے ان تمام واقعات کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں جاری ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور تعلیمی یافتہ نوجوانوں پر قاتلانہ حملے ناقابل برداشت ہیں۔ فورم نے حکومت، عدلیہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ ان سنگین خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لیا جائے اور ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔