بلوچ نیشنل موومنٹ کے شعبہ انسانی حقوق سے منسلک ادارہ پانک نے مارچ 2025 کے دوران بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں تشویشناک اضافہ رپورٹ کیا ہے، جس میں 181 جبری گمشدگیاں اور 12 ماورائے عدالت قتل کی تفصیلات شامل ہیں۔
پانک کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق، پاکستانی فورسز اور ان سے منسلک ڈیتھ اسکواڈز نے وسیع پیمانے پر لوگوں کو اغواء کے بعد جبری لاپتہ کیا ، جن کا ہدف زیادہ تر طلبہ، سماجی کارکن، اور سول سوسائٹی کے افراد تھے۔ پانک نے بتایا کہ 87 افراد کو اغوا نما گرفتاری کے بعد میں رہا کیا گیا، جن میں سے کئی پر بدترین تشدد کے نشانات موجود تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ گرفتاریاں اکثر بغیر کسی قانونی وارنٹ یا عدالتی کارروائی کے عمل میں آئیں۔
مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے پانک نے بتایا کہ شال اور کلات میں سب سے زیادہ 37 جبری گمشدگیاں رپورٹ ہوئیں۔ دیگر متاثرہ علاقوں میں ڈیرہ بگٹی (18)، گوادر (15)، نوشکے (13)، ڈیرہ غازی خان (10)، کیچ (9)، بارکھان (8)، آواران (7)، کراچی (6)، سیبی (2) لسبیلہ (5)، مستونگ (4)، پنجگور (3)، اور نصیرآباد (2) شامل ہیں۔ مزید برآں، پانک نے اسلام آباد، کچی، جعفرآباد، جیکب آباد، اور خضدار سے ایک ایک جبری گمشدگی کا واقعہ بھی درج کیا ہے۔
پانک نے نشاندہی کی کہ ماورائے عدالت قتل کیے گئے کئی افراد پہلے ہی جبری گمشدگی کا شکار رہ چکے تھے۔ ان میں نظام بلوچ شامل ہیں، جنھیں 11 مارچ کو گلی ، بلیدہ سے اغوا کیا گیا تھا اور اگلے دن ان کی لاش برآمد ہوئی۔ ان کے بھائی شاہ نواز بلوچ کو بعد میں کیچ میں گولی مار کر قتل کیا گیا۔ ایک اور مقتول شخص شاہ جہان کرد تھے، جو کہ جبری لاپتہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کے رہنما زاہد بلوچ کے بھائی تھے؛ انھیں خضدار کے علاقے نال میں قتل کیا گیا۔
ایک المناک واقعہ 21 مارچ کو ایک پرامن احتجاج کے دوران پیش آیا، جس کا مقصد جبری لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ تھا۔ پانک نے رپورٹ کیا کہ 12 سالہ نعمت بلوچ، حبیب بلوچ اور امداد بلوچ کو احتجاج کے دوران گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ پانک نے نعمت بلوچ کی شہادت کو ’’ ریاستی جبر کی علامت ‘‘ قرار دیا۔
23 مارچ کو احسان بلوچ، جو بی وائی سی کے کارکن اور دکاندار تھے، کو خضدار میں قتل کر دیا گیا۔ پانک نے اس قتل کو ’’ منصوبہ بند ٹارگٹ کلنگ ‘‘ قرار دیا۔ چند دن بعد، 26 مارچ کو توصیف، ظہیر، اور ارشاد بلوچ کی تشدد زدہ لاشیں مشکے سے برآمد ہوئیں — یہ تینوں پہلے اغوا ہو چکے تھے۔ پانک نے مزید بتایا کہ سیف بلوچ اور انس بلوچ، جو کئی ماہ سے جبری لاپتہ تھے، کی بھی لاشیں مارچ کے آخر میں برآمد ہوئیں۔
رپورٹ میں اہم سیاسی کارکنان کی غیرقانونی گرفتاری کی تفصیلات بھی شامل ہیں، جن میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، بیبگر بلوچ، اور شاہ جی صبغت اللہ بلوچ شامل ہیں۔ انھیں ایم پی او ایکٹ کے تحت حراست میں لے کر شال کی ھدا جیل منتقل کیا گیا۔
پانک نے کاسی قبرستان میں 13 نامعلوم لاشوں کی خفیہ تدفین پر بھی گہری تشویش ظاہر کی ہے، جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ماضی میں جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے افراد کی لاشیں ہو سکتی ہیں۔ تنظیم نے ان تدفینوں کی فوری فورنزک تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
پانک نے جاری ریاستی جبر کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے فوری مداخلت اور پاکستانی ریاست سے جواب طلبی کا مطالبہ کیا ہے۔