بیبو بلوچ، ڈاکٹر ماہ رنگ، گلزادی اور دیگر رہنماؤں پر تشدد و گرفتاریوں کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر آج بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جن میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی، مظاہرین نے بی وائی سی رہنماؤں پر ریاستی تشدد، گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
مظاہرین نے زیر حراست بی وائی سی رہنماؤں پر ریاستی تشدد کا خاتمہ اور فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہدہ اور کلی کمبرانی میں الگ الگ احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں جن میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ اور گلزادی بلوچ پر سی ٹی ڈی اور پولیس اہلکاروں کے تشدد کی مذمت کی گئی۔
مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ بیبو بلوچ کو ہدہ جیل کے اندر سے زبردستی لاپتہ کیا گیا، اور انھیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کال پر آج کراچی، خضدار، مستونگ، پنجگور، تربت، کیچ، ماشکیل، خاران، چارسر، دالبندین، چاغی اور نوشکی میں بھی بی وائی سی کی اپیل پر احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بی وائی سی رہنماؤں کے حق میں اور ریاستی مظالم کے خلاف نعرے درج تھے۔
نوشکی کے مظاہرین نے بیبو بلوچ کو مبینہ طور پر اذیت دینے کے بعد دوسری جگہ منتقل کرنے کے اقدام کو غیر انسانی قرار دیا۔
کراچی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق فقیری کالونی میں بی وائی سی کے احتجاج میں شرکت کے بعد واپسی پر ملیر سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کو سندھ پولیس نے احتجاج کے بعد گھر واپسی پر بس کے اندر سے گرفتار کر لیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ جب تک رہنماؤں کی رہائی اور تشدد بند نہیں ہوتا، احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا۔
تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ تمام ریاستی تشدد اور جبری گمشدگیوں کے باوجود عوام کا سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا اس بات کی گواہی ہے کہ عوام شعور یافتہ ہوچکا ہے اور اسے مزید طاقت اور تشدد سے روکا نہیں جاسکتا۔
تنظیم نے مزید کہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی تمام مظالم سہنے کے باجود اپنا احتجاجی تحریک جاری رکھے گا۔