بلوچستان اور پاکستان: ایک ناقابل مفاہمت تنازعہ
تحریر: ڈاکٹر علی ہوت
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان نے 1948 میں بلوچستان پر زبردستی قبضہ کیا، اور یہ مسئلہ محض ایک سیاسی اختلاف نہیں بلکہ ایک سنگین تاریخی المیہ بن چکا ہے، جو کئی دہائیوں پر محیط ریاستی جبر، وسائل کی بے دریغ لوٹ مار، انسانی حقوق کی مسلسل پامالی اور بلوچ قومی شناخت کو مٹانے کی منظم کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس میں بلوچ عوام کو ان کے بنیادی انسانی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور ان کے صبر، برداشت اور مزاحمت کا بار بار امتحان لیا گیا ہے۔ ریاستِ پاکستان نے اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے سمجھنے یا حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ دباؤ، خاموشی اور تشدد کے ذریعے اسے دبانے کی پالیسی اختیار کی۔ یہ تمام عوامل اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ ریاست بلوچوں کو اس ملک کا مساوی شہری تسلیم کرنے کے لیے کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہی۔ طاقت اور جبر کے ذریعے بلوچستان کے قدرتی وسائل کو لوٹا جاتا رہا ہے اور ان پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن ریاستی ہتھکنڈہ استعمال کیا گیا۔
پاکستانی میڈیا کو ہمیشہ سچ چھپانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جہاں ایسے افراد کو نمایاں کیا جاتا ہے جو ریاست کے حامی چہرے ہوتے ہیں، اور جو درحقیقت بلوچوں کے قتل عام اور جبر میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقی بلوچ نمائندے نہیں ہوتے بلکہ ریاستی پروپیگنڈے کا حصہ بن کر بلوچ جدوجہد کو بدنام کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ریاستی اہلکار خود بلوچ مخالف بیانات دیتے ہیں تاکہ پرامن احتجاجوں اور بلوچ تحریک کو بدنام کیا جا سکے۔
بلوچستان کے قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے ریاست نے جس شد و مد کے ساتھ اقدامات کیے ہیں، وہ اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ بلوچستان کو صرف ایک نوآبادیاتی خطے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سندک منصوبے میں بلوچستان کو اب تک محض دو فیصد بھی حصہ نہیں دیا گیا، جبکہ ریکوڈک کا معاہدہ مکمل طور پر عوام سے خفیہ رکھا گیا۔ سی پیک جیسے بڑے منصوبے کا فائدہ بھی بلوچستان کے بجائے پنجاب کو دیا گیا، جبکہ بلوچستان خود آج بھی بنیادی انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم اور پینے کے پانی جیسی سہولیات سے محروم ہے۔ سوئی گیس، جو 1955 سے پورے پاکستان کو فراہم کی جا رہی ہے، خود سوئی کے باسی آج بھی گیس سے محروم ہیں۔ ان تمام شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ وسائل کی یہ لوٹ مار ریاستی پالیسی کا ایک منظم حصہ ہے۔
بلوچستان کی دولت کھربوں ڈالر تک لوٹی جا چکی ہے مگر اس کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ موجود نہیں۔ اس مالی استحصال کا مکمل آڈٹ ہونا چاہیے اور جو دولت پنجاب اور وفاق کے ذریعے چھینی گئی، اسے قسطوں میں واپس بلوچستان کے عوام کو دیا جانا چاہیے۔ تاہم ریاست اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوگی کیونکہ اگر احتساب کا دروازہ کھولا گیا تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی کہ بلوچستان کو کتنے منظم انداز میں اور کتنی دیر سے نوآبادیاتی طرز پر لوٹا جا رہا ہے۔ لیکن بلوچ عوام اب مزید خاموش رہنے پر آمادہ نہیں، اور جب تک انہیں ان کا مکمل حق نہ ملے، وہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔
انسانی حقوق کی پامالی بلوچستان میں معمول بن چکی ہے۔ جبری گمشدگیاں روزمرہ کا معمول ہیں۔ ریاستی ادارے عام شہریوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، ان کی لاشیں مسخ شدہ حالت میں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں، اور ان کے خاندانوں کو اجتماعی سزائیں دی جاتی ہیں۔ ہزاروں بلوچ اب تک لاپتہ ہو چکے ہیں، اور آئے روز لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کسی عدالت یا عدالتی نظام نے ان مظالم کا نوٹس نہیں لیا۔ ریاستی عناصر ان مظالم کے مرکزی کردار ہیں، اور صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بلوچ عوام دن کے اجالے میں بھی اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ہر گلی، ہر سڑک پر بندوقیں ان کی طرف تنی ہوتی ہیں۔
بلوچ مسلح تنظیمیں اب بلوچوں کی خودارادیت کی نمائندہ بن چکی ہیں۔ ریاست کا یہ دعویٰ کہ یہ تنظیمیں بیرونی مدد سے چلتی ہیں، محض ایک پروپیگنڈہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت اسلحہ حاصل کرتی ہیں، یا دشمن سے لڑائی کے دوران اسلحہ چھین کر خود کو مسلح رکھتی ہیں۔ پچھلے ایک سال میں جاری جنگ کے دوران کسی مزدور کو نشانہ نہیں بنایا گیا، اور نہ ہی عام پنجابی عورتوں، بچوں یا بزرگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بلوچ علاقوں میں مقیم عام پنجابی افراد محفوظ ہیں، لیکن ریاست اس بیانیے کو پروان چڑھاتی ہے تاکہ پنجاب کی عوام کو بلوچوں کے خلاف کھڑا کیا جا سکے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان تنظیموں کے ہاتھوں مارے جانے والے فوجی پنجابیوں سے کہیں زیادہ تعداد میں وہ بلوچ مارے گئے ہیں جنہیں ریاستی سہولت کار سمجھا جاتا تھا، کیونکہ آزادی کی راہ میں ہر رکاوٹ کو دور کرنا ان کے لیے ناگزیر ہے۔
عدالتی نظام اور آئینی ڈھانچہ بھی بلوچوں کے لیے محض ایک استحصالی نظام بن چکا ہے۔ بلوچ قوم نہ 1973 کے آئین کو تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی 18ویں ترمیم کو، کیونکہ ان اقدامات کے باوجود بلوچستان کے وسائل پر کنٹرول وفاق اور پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی رہتا ہے۔ ایسا نظامِ انصاف، جو ظلم کو قانونی حیثیت دے، بلوچ عوام کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ ریاست نے بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنایا ہے۔ اساتذہ کو تنخواہیں نہیں دی جاتیں، اور اگر وہ احتجاج کریں تو انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تاہم اب یہ حربے بے اثر ہو چکے ہیں، کیونکہ بلوچ نوجوان باشعور ہو چکے ہیں اور جان چکے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
ریاستی آپریشنز اب کھلے عام قتل عام میں بدل چکے ہیں۔ اگر کسی خاندان کا ایک فرد بھی مزاحمت کاروں سے منسلک ہو، تو پوری فیملی کو اجتماعی سزا دی جاتی ہے۔ ریاست عام شہریوں کو قتل کر کے ان آپریشنز کو کامیابی ظاہر کرتی ہے، لیکن اصل مزاحمت کاروں کو نشانہ بنانے میں مسلسل ناکام رہتی ہے۔
بلوچوں کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی ان کی قومی شناخت کو مٹانے کی کوشش کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ ریاستی منصوبہ بندی کے تحت بلوچ علاقوں میں بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے لے لئے کئی سازشیں کی ہیں۔ گوادر میں بھی ایسی ہی کوشش جاری ہے جہاں غیر بلوچ آبادی کو لا کر مقامی بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بلوچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے کی اجازت نہیں، اور ان کی ثقافت کو ریاستی سطح پر مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ریاستی میڈیا نے ہمیشہ جھوٹ، فریب اور پروپیگنڈے کا سہارا لے کر بلوچ عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ میڈیا پر وہ چہرے دکھائے جاتے ہیں جو ریاست کے ایجنٹ ہوتے ہیں اور بلوچ تحریک کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ آزاد صحافت پر مکمل پابندی ہے تاکہ بلوچستان کی اصل صورتحال سامنے نہ آ سکے۔ سوشل میڈیا تک بھی ریاست نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ بلوچستان میں انٹرنیٹ کی بندش اب معمول کی بات ہے، جبکہ دنیا چاند پر بستیاں بسانے کی بات کر رہی ہے، بلوچ عوام انٹرنیٹ جیسے بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔
بلوچ نوجوانوں کا ریاست پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی پر ریاستی کریک ڈاؤن کے بعد نوجوانوں کے لیے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اب لڑائی کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں۔ ہر بلوچ نوجوان اب پہاڑوں کا رخ کرنے کو تیار ہے۔ وہ مرنے کو تو تیار ہے، لیکن مزید غلامی یا ذلت کی زندگی کو قبول کرنے کے لیے ہرگز نہیں۔
بلوچستان کی موجودہ نوآبادیاتی حیثیت، مسلسل استحصال، جبر، قتل عام، وسائل کی لوٹ مار اور قومی شناخت کے خلاف سازشیں یہ واضح کرتی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بلوچ قوم کی بقا ممکن نہیں۔ ریاستی طاقت، میڈیا کا جھوٹ، عدالتی ناانصافی، معاشی استحصال، اور فوجی آپریشنز اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا واحد حل مکمل اور غیر مشروط آزادی ہے۔ نہ کوئی ترمیم، نہ وعدہ، نہ معاشی پیکج بلوچ قوم کو مطمئن کر سکتا ہے۔ اس تاریخی ناانصافی کا واحد اور حتمی ازالہ صرف آزادی ہے، اور بلوچ قوم اس راستے پر اب اٹل کھڑی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں