بلوچستان،خاموشی چیخ میں بدل گئی
تحریر: اعظم اُلفت
دی بلوچستان پوسٹ
تادم تحریر سرداراخترمینگل کا لک پاس کے مقام پر دھرنا جاری ہے،تاریخ میں پہلی بار کوئٹہ کے پریس کلب نے بھی دھرنے سے اظہار یکجہتی کی ہے۔سماجی رابطہ کی ایپ ایکس پر ایک پیغام میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراخترمینگل کا کہنا ہے کہ ہم پرامن ہے مگر اسے ہماری کمزوری نہ سمجھو ترجمان حکومت بلوچستان کو بھی انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ تنخوادار صوبائی ترجمان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جان اچکزئی بھی ترجمان تھے۔وہی کام تم کوئٹہ میں بیٹھ کر جھوٹ اور من گھڑت باتوں سے نفرت میں اضافہ کیا جا رہا ہے چھوٹا منہ بڑی بات نہ کریں عوامی سمندر دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار حکمران خود کو دھوکہ دے رہے۔ اخترمینگل نے کہا کہ’ہم پُرامن ہے مگر اسے ہماری کمزوری نہ سمجھو ہم پر چلائی گئی ہر گولی ہمیں یاد ہے ہر ظلم ہمارے دل پر نقش ہے ہم خاموش نہیں اور نہ ہی ہمارا سفر ختم ہوا ہے ہماری آواز ہمارا ہتھیار ہے اور ہم اسے طوفان کی طرح بلند کرے گے۔
بلوچستان،، ایک ایسا خطہ جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ، لیکن سب سے زیادہ نظرانداز بھی۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے وسیع، لیکن حقوق کے اعتبار سے سب سے محروم۔ وسائل سے مالا مال، لیکن ترقی سے ناآشنا۔ امن کا متلاشی، لیکن پچھلے دو دہائیوں سے شورش، جبر، محرومی اور بغاوت کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور۔بلوچستانی عوام۔
گزشتہ چند ہفتوں سے بلوچستان کی فضا ایک بار پھر کشیدہ ہے۔ سردار اختر مینگل کی قیادت میں جاری دھرنا اور لانگ مارچ کی صورتحال نے صوبے میں ریاستی رٹ، عوامی بیگانگی، معاشی ابتری اور جمہوری حقوق کی پامالی کو پوری شدت کے ساتھ بےنقاب کر دیا ہے۔
سردار اختر مینگل، جو ایک اعتدال پسند قوم پرست سیاستدان ہیں، گزشتہ کئی برسوں سے بلوچستان کے عوامی مسائل کو جمہوری انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ ان کا حالیہ دھرنا بلوچ خواتین کی رہائی ،لاپتہ افراد، معاشی استحصال، اور سیاسی ناانصافیوں کے خلاف ایک پرامن احتجاج ہے۔ دھرنے کو دس دن سے زائد گزر چکے ہیں۔ جب شرکاء نے کوئٹہ لانگ مارچ کی طرف قدم بڑھایا تو سیکیورٹی فورسز نے پورے دھرنے کو گھیرے میں لے لیا، راستے بند کر دیے اور مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ریاستی طاقت کا اس طرح استعمال محض ایک مارچ کو روکنے کا عمل نہیں بلکہ عوامی آواز کو دبانے کی ایک مثال ہے۔ یہ جمہوری اقدار کے خلاف ہے اور عوام کے دلوں میں پہلے سے موجود بیگانگی کو مزید گہرا کرتا ہے۔
سردار اختر مینگل کا دھرنا اور اس کے بعد کا طرزِ عمل، بالخصوص سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مارچ کو روکنا، نہ صرف جمہوری اقدار کی پامالی ہے بلکہ عوام کے جمہوری حقوق پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ اگر ایک پرامن سیاسی احتجاج کو اس انداز سے دبایا جائے تو یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔
بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں ریاست کی رٹ عملاً ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ صرف امن و امان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہرے سماجی، سیاسی، معاشی اور انسانی بحران کی علامت ہے۔
مہنگائی، روزگار کی کمی، اشیائے خورونوش کی قلت اور مسلسل احتجاجی کیفیت،یہ سب عوامل عوام کو بیزار اور ریاست سے مزید دُور کر رہے ہیں۔ اگر حاکم وقت نے بروقت اور سنجیدہ اقدامات نہ کیے، تو “بنگال جیسی صورتحال” پیدا ہونا کوئی بعید بات نہیں، اور اس کے نتائج نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے تباہ کن ہوں گے۔یہ وقت ہے کہ ریاست اور اسٹیک ہولڈرز زمینی حقائق کا سامنا کریں، بلوچ عوام کی آواز سنیں، اور ایک جامع سیاسی حل کی طرف بڑھیں۔ بصورتِ دیگر، یہ دبی ہوئی چنگاری کسی دن شعلہ بن جائے گی۔
بلوچستان میں اس وقت مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں ریاست کی رٹ محض بڑے شہروں یا فوجی تنصیبات تک محدود ہو چکی ہے۔ دیہی اور پسماندہ اضلاع میں حکومت کی موجودگی صرف کاغذوں میں ہے۔ نہ تھانے کام کرتے ہیں، نہ عدالتیں، نہ اسکول، نہ اسپتال۔ ان علاقوں میں لوگ اپنی حفاظت کے لیے قبائلی نظام یا مسلح گروہوں پر انحصار کرتے ہیں، جو ایک سنگین خطرہ ہے۔ستر فیصد سے زائد علاقے ایسے ہیں جہاں ریاستی ادارے یا تو سرے سے موجود ہی نہیں یا ان کی موجودگی صرف چیک پوسٹ یا کرفیو تک محدود ہے۔ اگر یہ ریاستی کمزوری نہیں تو اور کیا ہے؟
بلوچستان میں مہنگائی کا طوفان صرف مالی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ بن چکا ہے۔ جہاں پورے ملک میں مہنگائی کی بات کی جاتی ہے، بلوچستان میں یہ شدت کہیں زیادہ ہے۔ سڑکوں کی بندش، احتجاج، دھرنے اور عدم توجہی کے باعث اشیائے خوردونوش کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ دیہی علاقوں میں آٹا، چینی، گھی، سبزیاں، پیٹرول یہاں تک کہ پینے کا پانی بھی نایاب ہوتا جا رہا ہے۔
حکومتی سبسڈی یا ریلیف پیکجوں کا بلوچستان تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے۔ کیونکہ نہ تو بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، نہ سیاسی ارادہ،ایک طرف بےروزگاری کا طوفان ہے، دوسری طرف مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ نوجوان طبقہ نہ ملازمت حاصل کر سکتا ہے، نہ کوئی کاروبار کر سکتا ہے، اور نہ ہی تعلیم جاری رکھ سکتا ہے۔
بلوچستان میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سرکاری نوکریاں مخصوص خاندانوں، علاقوں یا سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر دی جاتی ہیں۔ میرٹ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔تعلیم کا حال یہ ہے کہ اکثر اسکول یا تو بند پڑے ہیں یا ان میں اساتذہ موجود نہیں۔
انسانی حقوق کی پامالی ایک خاموش نسل کشی کے مترادف ہے، بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سب سے دردناک ہے۔ ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کے لیے برسوں سے سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ خواتین، بچے اور بزرگ مسلسل احتجاج کر رہے ہیں، لیکن ریاستی ادارے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
ماورائے عدالت گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں، اور نامعلوم افراد کی کاروائیاں بلوچستان کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا آواز اٹھا چکی ہیں، لیکن حکومتی سطح پر سنجیدہ ردعمل ناپید ہے۔پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بنگال کی تاریخ دہرانے جا رہے ہیں؟
اکثر قوم پرست حلقے، دانشور، حتیٰ کہ کچھ ریاستی اہلکار بھی اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر بلوچستان کے حالات پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو یہ خطہ بھی مشرقی پاکستان کی طرح الگ ہونے کی طرف جا سکتا ہے۔ یہ بات محض جذباتی نہیں، بلکہ زمینی حقائق پر مبنی ہے۔جب عوام کا ریاست پر سے اعتماد اٹھ جائے، جب ان کی آواز نہ سنی جائے، جب ان کے دکھ کو بےتوجہی سے دیکھا جائے، اور جب ان کے نوجوانوں کو لاپتہ کر دیا جائے، تو پھر کوئی بھی ریاست کے ساتھ اپنا رشتہ برقرار رکھنے میں سنجیدہ نہیں رہتے۔
حل کے متلاشی لوگ تجویز کرتے ہیں کہ جمہوری مکالمہ فوری شروع کرنے کی ضرورت ہےجس میں تمام قوم پرست قیادت کے ساتھ فوری مذاکرات کا آغاز کیا جائے، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور ریاستی جبر کے خلاف آزاد کمیشن،بلوچستان کے لیے ایک شفاف اور مقامی شراکت داروں کے ذریعے چلنے والا معاشی ترقیاتی منصوبہ ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے،فوری طورپر صوبے کے بنیادی سہولیات پر توجہ خاص طور پر تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبے میں۔ریاستی رویے میں تبدیل کرکے طاقت کی زبان ترک کی جائے اور اعتماد، انصاف اور شفافیت کو بنیاد بنایا جائے۔
اب فیصلہ ریاست کے ہاتھ میں ہے۔بلوچستان خاموش نہیں رہا، اب اس کی خاموشی چیخ میں بدل چکی ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب وقت ہے کہ ریاست سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، کیونکہ اگر یہ موقع بھی گنوا دیا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔بلوچستان کو کسی رحم، خیرات یا وقتی ہمدردی کی نہیں، انصاف، عزت اور حق کی ضرورت ہے۔ اور جب تک یہ نہیں دیا جاتا، دھرنے، لانگ مارچ، احتجاج اور نافرمانی کا سلسلہ رکنے والا نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔