امریکی ہتھیار – ٹی بی پی اداریہ

298

امریکی ہتھیار

ٹی بی پی اداریہ

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے 14 اپریل کے شمارے میں ایک رپورٹ بعنوان “افغان جنگ کے لیے امریکی ہتھیار پاکستانی عسکریت پسندوں کو مہلک فائدہ دے رہے ہیں” شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے اخبار کو تین امریکی رائفلز کے سیریل نمبر فراہم کیے ہیں، جو مبینہ طور پر بولان میں جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے افراد کے زیرِ استعمال تھیں۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ حملہ آوروں کے پاس ایک ایم فور اے وَن رائفل بھی تھی، جو امریکی اسلحہ ساز کمپنی کولٹ نے تیار کی تھی۔

پاکستانی وفاقی وزرا اور بعض تجزیہ نگار، بلوچ جنگِ آزادی میں حالیہ جدت اور شدت کو ان امریکی ہتھیاروں کے استعمال سے جوڑ رہے ہیں، حالانکہ افغانستان گزشتہ چالیس برسوں سے اسلحے کی ایک عالمی منڈی بنا ہوا ہے۔ سوویت یونین کی مداخلت کے بعد سے ہی نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں اسلحے کی فراوانی ایک معمول بن چکی ہے۔

امریکہ اور دیگر عالمی قوتوں کی افغانستان میں موجودگی کے دوران بھی امریکی اسلحہ بلیک مارکیٹ میں دستیاب رہا ہے۔ یہ ہتھیار صرف بلوچستان یا خیبر پختونخوا تک محدود نہیں، بلکہ کشمیر اور وسطی ایشیائی تنازعات میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی بلیک مارکیٹ میں بھی یہ اسلحہ بآسانی دستیاب ہیں۔

تاہم، بلوچ جنگِ آزادی میں آنے والی جدت اور شدت کا بنیادی سبب امریکی اسلحہ نہیں، بلکہ عالمی اور علاقائی حالات میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں بلوچ مسلح تنظیموں کی بدلتی ہوئی حکمتِ عملی، بڑھتی ہوئی جنگی صلاحیتیں اور باصلاحیت نوجوانوں کی بڑی تعداد میں شمولیت ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں بلوچ مسلح تنظیموں، خاص طور پر بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ، نے اپنی اسلحہ کی ضروریات کا بڑا حصہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز، بشمول فوج، فرنٹیئر کور، پولیس اور لیویز سے اسلحہ چھین کر پورا کیا ہے۔ جنگوں میں اسلحے کی اہمیت مسلمہ ہے، لیکن فیصلہ کن کردار جنگی اداروں کی پالیسیاں، حکمتِ عملیاں اور ان کی عملی صلاحیتیں ادا کرتی ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کی پالیسی ساز قیادت بلوچ مسئلے کی ماہیت کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی اس مسئلے کو مسلح تنظیموں کے اسلحے سے منسلک کرتے ہیں، اور کبھی اسے غیر ملکی قوتوں کی سازش قرار دے کر عوامی بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بلوچ قوم حقِ حاکمیت اور آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ امریکی اسلحے کو اس جدوجہد سے جوڑ کر ایک خاص بیانیہ ضرور بنایا جا سکتا ہے، مگر اس سے معروضی حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے۔ بلوچستان میں جنگِ آزادی میں شدت اور جدت کی اصل وجہ یہی ہے کہ بلوچ مسلح تنظیموں کی جنگی حکمتِ عملی میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔