استعماری لغت کا انہدام (حصہ دوم۔ زبان سے آگے، طاقت کے نظام تک) – برزکوہی

246

استعماری لغت کا انہدام
(حصہ دوم۔ زبان سے آگے، طاقت کے نظام تک)

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ریاست اب ہمیں مارتے وقت محض گولی نہیں، مفہوم بھی استعمال کرتی ہے۔ آواران کے وہ علاقے جہاں بچے اسکول جاتے ہوئے فوج کے ہاتھوں اغوا ہوتے ہیں، وہ اب سیکیورٹی زون ہے۔ ڈیرہ بگٹی، جہاں سروں کے بغیر لاشیں ملتی ہیں، وہاں کی زمین کو ریاستی عملداری کی واپسی کہا جاتا ہے۔ شال، جہاں یونیورسٹی کی طالبات اپنے ساتھیوں کے گمشدگی پر احتجاج کرتے ہیں، اب لغت میں قانون شکنی کا مرکز کہلاتا ہے۔ لغت صرف زمین کے نقشے نہیں بدلتی، ذہن کا جغرافیہ بھی مسخ کر دیتی ہے۔

ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم پسماندہ ہیں۔ مگر یہ لفظ تب استعمال ہوتا ہے جب ہم سڑک نہیں مانگتے بلکہ شناخت مانگتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچ عورت کو آزادی چاہیے، مگر جب وہی عورت جب بیانیہ تخلیق کرے تو اُسے آزاد نہیں دہشتگرد کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ریاستی لغت، جسے گرامچی نے عوامی شعور پہ تسلط کی شکل کہا تھا، بےنقاب ہو جاتی ہے۔

استعمار کا سب سے خاموش لیکن طاقتور وار وہ ہوتا ہے جو معنی پر قبضہ کرتا ہے۔ وہ صرف زمین پر نہیں آتا، وہ زبان میں آتا ہے۔ وہ صرف جسم کو نہیں باندھتا، بلکہ ذہن کو اس طرح تربیت دیتا ہے کہ قید کو آزادی، خاموشی کو ہم آہنگی، اور مزاحمت کو شورش سمجھا جائے۔ جب استعمار لغت کو اپنی مرضی سے مرتب کرتا ہے، تو وہ صرف لفظوں کے معنی نہیں بدلتا، وہ لفظوں کے استعمال کا حق اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ یہی اصل نوآبادیاتی فتح ہے، جب محکوم اپنی بات استعمار کی لغت میں کرتا ہے اور پھر بھی اُسے خود اپنی آواز اجنبی لگتی ہے۔

میشیل فوکو، جو طاقت اور علم کے تعلق کو فلسفیانہ بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر طاقت اپنے ساتھ ایک “سچائی کا نظام” لے کر آتا ہے۔ یعنی طاقتور صرف یہ طے نہیں کرتا کہ کیا کہا جائے، بلکہ یہ بھی طے کرتا ہے کہ کون کہہ سکتا ہے، کس لہجے میں، کس مقصد کے تحت، اور کس قیمت پر۔ جب ریاست یا استعمار کسی مخصوص فقرے کو قابلِ قبول قرار دیتا ہے، تو وہ صرف جملہ نہیں چنتا، وہ پوری فکر کا دائرہ طے کر دیتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں لغت، ایک ڈکشنری نہیں رہتی، بلکہ وہ ایک سیاسی نظریے کو آگے بڑھاتی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ نوآبادیاتی طاقتیں صرف بندوق کے بل بوتے پر محکوم کو قابو میں نہیں لاتیں بلکہ اُن کے لیے مخصوص سچائیاں مرتب کرتی ہیں۔ وہ یہ طے کرتی ہیں کہ تاریخ کس کی ہو، شہادت کس کی ہو، وطن پرستی کا مطلب کیا ہو، اور غداری کس کو کہا جائے۔ استعمار اپنے حق میں تمام سچائیاں اس طرح منظم کرتا ہے کہ محکوم کے پاس اپنی سچائی کو کہنے کا کوئی ایسا وسیلہ باقی نہ رہے، جو اُس کے خلاف نہ چلا جائے۔ یہ طاقت صرف سخت نہیں ہوتی، یہ نرم، اخلاقی، اور اکثر مہذب لفاظی کے پردے میں چھپی ہوتی ہے۔

فوکو اسی لئے کہتا ہے کہ “طاقت صرف وہ نہیں جو جسم کو کنٹرول کرے، بلکہ وہ ہے جو سچ کی تعریف متعین کرے”۔ سچ کی یہ منظم شکل ہی دراصل لغت کا وہ ڈھانچہ ہے جو بظاہر بےضرر الفاظ کے ذریعے پوری فکری زمین پر قبضہ کر لیتا ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں لغت صرف خبر یا وضاحت کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک باقاعدہ “ادارہ تسلط” بن جاتا ہے۔

لغت جب صرف لفظوں کا مجموعہ نہ رہے بلکہ فکری کنٹرول کا آلہ بن جائے، تو سوال یہ نہیں رہتا کہ ہم کیا کہتے ہیں، سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم کہنے کی اجازت کہاں سے لیتے ہیں؟ استعمار کی اصل کامیابی تب ہوتی ہے جب محکوم کو یہ شعور ہی نہ ہو کہ اُس کے جملے میں استعمار کی مرضی شامل ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں لغت، شعور کے قالب میں اس طرح گھل جاتی ہے کہ انکار بھی استعماری الفاظ میں ہوتا ہےاور جس کا مفہوم صرف نوآبادیاتی ادارے طے کرتے ہیں۔

یہ عمل فقط لسانی نہیں، بلکہ فکری تشکیل کا حصہ ہے۔ استعمار ایسی فکر پیدا کرتا ہے جو صرف حکمران کی لغت میں سوچ سکے۔ اس کا دائرہ صرف صحافت، تعلیم یا قانون تک محدود نہیں، بلکہ یہ زندگی کے ہر میدان میں سرایت کرتا ہے۔ لغت اب صرف زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ علم، تاریخ، معاشرت، جنس، اور ذات کی ساخت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اور یہیں سے وہ فلسفیانہ جنگ شروع ہوتی ہے جو لغت سے آگے “معنی کی ملکیت” تک جا پہنچتی ہے۔

انطونیو گرامچی اس پورے عمل کو ثقافتی بالادستی کا نام دیتا ہے۔ اس کے مطابق طاقت صرف جبر سے نہیں بلکہ “رضامندی” سے بھی چلتی ہے۔ یعنی طاقتور طبقہ اپنی لغت، اپنے نظریات، اور اپنی اقدار کو اس طرح عام کر دیتا ہے کہ محکوم طبقہ اُسے عام فہم، معقول یا فطری سمجھ کر اپنالیتا ہے۔ یہی وہ رضامندی ہے جو غلامی کو بھی دانشمندی، وفاداری، یا عملی سیاست کا نام دے دیتی ہے۔

گرامچی کے مطابق ریاست دو ڈھانچوں پر قائم ہوتی ہے، سیاسی معاشرہ اور شہری معاشرہ۔ سیاسی معاشرہ وہ ہے جہاں جبر اور قانون کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فوج، پولیس، عدالت۔ لیکن اصل تسلط اُس شہری معاشرے میں پنپتا ہے جہاں اسکول، مذہب، میڈیا، اور سماجی تنظیمیں اس لغت کو پیدا کرتی اور پھیلاتی ہیں۔ جس میں مزاحمت امن کی خرابی بن جاتی ہے اور چپ رہنا وطن سے محبت۔

یہ وہ عمل ہے جس میں ریاست صرف طاقت سے نہیں بلکہ فکری غلبے سے عوام کو قائل کرتی ہے کہ ان کی فلاح اسی نظام میں ہے جس نے انہیں محکوم بنایا ہے۔ اس غلبے کو زبان کے ذریعے مضبوط کیا جاتا ہے۔ ہر وہ لفظ جو قابض کے سچ کو چیلنج کرے، غیر ذمہ دار، شدت پسند یا بیرونی ایجنڈا قرار دیا جاتا ہے۔

نوآبادیاتی لغت کی سب سے مہلک صفت یہی ہے کہ وہ کبھی براہ راست حملہ نہیں کرتا۔ وہ آہستہ آہستہ الفاظ کے مفہوم، جملوں کی ساخت، اور لہجوں کی روح کو اس طرح بدل دیتی ہے کہ محکوم کو شک بھی نہ ہو کہ وہ جو بول رہا ہے وہ دراصل اُسے بولا گیا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں شعور بھی لغت کے اندر سے بات کرنے لگتا ہے، اور اسی لیے مزاحمت سب سے پہلے اپنے ہی لفظوں پر شبہ سے شروع ہوتی ہے۔

دریدہ اپنے تھیوری “تشریحات کے انہدام” میں کہتا ہے کہ لغت کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ ہر لفظ دوسرے لفظ پر انحصار کرتا ہے، ہر معنی کسی دوسرے سیاق پر قائم ہوتا ہے۔ یہ غیر یقینیت لغت کو ہمیشہ ایک میدانِ جنگ میں بدل دیتا ہے۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں نوآبادیاتی لغت کو بےنقاب کیا جا سکتا ہے۔

لغت کا نوآبادیاتی تسلط صرف معنی پر نہیں بلکہ وقت پر بھی قائم ہوتا ہے۔ استعمار وقت کی لکیر کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ وہ ماضی کو “پسماندگی”، حال کو “بدامنی”، اور مستقبل کو “ترقی” کے وعدے میں بدل دیتا ہے اور اس ترتیب میں محکوم ہمیشہ کسی ایسی منزل کا انتظار کرتا رہتا ہے، جو اُس کی نہیں ہوتی۔

یہ وقت کا استعمار( ٹیمپورل کالونائزیشن) لغت کے ذریعے نافذ ہوتا ہے۔ یعنی “پہلے تم وحشی تھے، اب ہم نے تمہیں سدھارا، کل تم مہذب بن جاؤ گے۔” یہ جملہ نہیں، ایک پورا فکری دھارا ہے، جو تاریخ، تشخص اور حق کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ اس میں محکوم صرف اپنے ماضی سے نہیں کاٹا جاتا، بلکہ اپنے مستقبل کی لغت بھی اپنے قابض کے رحم و کرم پر چھوڑ جاتا ہے۔

گوادر صرف ایک بندرگاہ نہیں رہتا، وہ ایک “اسٹریٹیجک زون” بن جاتا ہے، وہ علاقہ جو کبھی ماہی گیروں کا مسکن تھا، اب “ایکنامک کاریڈور” کہلاتا ہے۔ لغت صرف جگہوں کے نام نہیں بدلتا، وہ جگہوں کے مفہوم بھی بدل دیتا ہے۔ دریدہ کے الفاظ میں، لغت “موجودگی” کو نہیں بلکہ “غیر موجودگی” کو چھپاتی ہے۔ جو مٹ چکا ہو، اُس کا ذکر لغت سے نکال دیا جاتا ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں نوآبادیاتی لغت کی خاموشی سب سے گہری چیخ بن جاتی ہے۔

ایسے میں جب محکوم اپنی زمین پر اپنے جملے استعمال نہیں کر سکتا، اپنی تاریخ اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا، اور اپنی شناخت کو اپنی زبان میں محفوظ نہیں کر سکتا تو اُس کا وجود ہی سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ نوآبادیاتی لغت کی سب سے بڑی کاریگری یہی ہے کہ وہ “وجود” کو لغت سے خارج کر کے اُسے غیر موجود ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سنہ ۴۸ سے قبل کے بلوچ و بلوچستان کی ایسی نفی کی جاتی ہے کہ بلوچ کا وجود ہی غیرموجود کردیا جائے۔

جب لغت خود استعمار کی شکل اختیار کر لے، تو مزاحمت محض ردعمل نہیں رہتی، بلکہ لغت کی بازیافت کا عمل بن جاتا ہے۔ یہ بازیافت صرف الفاظ کو نئے مفاہیم دینے کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ طاقت کے پورے نظام کو رد کرنے کی شعوری کوشش ہے۔ اب لغت میں آزادی محض کسی سیاسی و جغرافیائی علیحدگی کا نام نہیں، بلکہ اُس سچائی کا بھی نام ہے جو طاقت کے نظام نے دبا رکھی تھی۔ اب حب الوطنی وہ عمل نہیں جو ریاست کے جھنڈے کے گرد خاموشی اختیار کرے، بلکہ وہ مزاحمت ہے جو ظلم کے ہر لغوی بہروپ کو ننگا کرے۔

فرانز فینن، جو نوآبادیاتی تشدد اور نفسیات کے ماہر تھے، کہتے ہیں کہ استعمار نہ صرف جسم پر قابض ہوتا ہے بلکہ محکوم کی خود فہمی کو بھی تباہ کرتا ہے۔ یہی تباہی لغت کے ذریعے کی جاتی ہے۔ جب غلام خود کو غلامی میں فخر سے دیکھے، جب عورت اپنی خاموشی کو وقار اور بے بسی کو حیا سمجھے، جب نوجوان اپنی بغاوت کو غیر حقیقی مانے، تو یہ لغت کی وہ کامیابی ہے جسے بندوق حاصل نہیں کر سکتی۔ لیکن فینن یہ بھی کہتے ہیں کہ جب محکوم اپنی زبان، اپنے استعارے، اور اپنے معنی خود تخلیق کرنا شروع کرتا ہے، تو وہ ایک ایسی آگ جلاتا ہے جو استعمار کے پورے فکری نظام کو خاکستر کر سکتی ہے۔

اور یہیں سے لغت ایک انقلابی ہتھیار بن جاتا ہے۔ اب مزاحمت صرف گولی کا عمل نہیں، بلکہ فکری بغاوت کا اظہار ہے۔ اب ہر وہ لفظ جو ریاست نے وضع کیا تھا، سوال بن جاتا ہے۔ ترقی کا مطلب پوچھا جاتا ہے، امن کی قیمت گنی جاتی ہے، حب الوطنی کی چادریں کھولی جاتی ہیں۔ اور ہر وہ جملہ جو پہلے صرف اخبار کی سرخی تھا، اب ایک مقدمہ بن جاتا ہے۔

لغت کی یہ بازیافت صرف فلسفہ نہیں، یہ روزمرہ کی سیاست ہے۔ جب کوئی بلوچ سڑک پر اپنے لاپتہ پیارے کی تصویر کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، تو وہ صرف احتجاج نہیں کر رہا، وہ ریاستی لغت میں مفقود کو موجود کر رہا ہے۔ جب ایک بلوچ عورت سیاسی سرکلوں میں بولتی ہے، تو وہ صرف بات نہیں کر رہی، وہ لغت کی اُس دیوار کو توڑ رہی ہے جس نے اُس کی صدا کو ہمیشہ غیر ضروری مانا۔ اور جب کوئی شاعر، صحافی، یا استاد اُس لغت سے انکار کرتا ہے جو اُسے دی گئی ہے، تو وہ دراصل لغت کا مالک بننے کی پہلی شرط پوری کرتا ہے۔

یہ لغت اب عدالت کے فیصلوں، اخبارات کی سرخیوں یا آئی ایس پی آر کی روزمرہ جھوٹی پریس ریلیز سے طے نہیں ہوگی۔ اب ہر وہ لفظ جو تم استعمال کرتے ہو جیسے کہ کلیئرنس آپریشن، ملک دشمن عناصر، قومی سلامتی، معصوم پنجابی مزدور، انتہا پسندی، وغیرہ یہ سب اپنے ہی تضادات میں گھِر چکے ہیں۔ کیونکہ اب بلوچ نوجوان انہیں اسی طنز سے سن رہا ہے، جس سے دریدہ نوآبادیاتی لغت کو پڑھتا تھا، جس سے فینن کالونیل نفسیات کو چیرتا تھا، اور جس سے فوکو طاقت کے سچ پر سوال اٹھاتا تھا۔

اب تم جو بھی بولو گے، ہم سنیں گے، مگر لغت کے اس کان سے، جس نے تمہارے تمام استعارے بے نقاب کر دیے ہیں۔ تم جو بھی لکھو گے، ہم اسے لغت کے اس حاشیے پر رکھیں گے، جہاں تمہاری تاریخ کے باقی جھوٹ پڑے ہیں۔ تم جو بھی مفہوم دو گے، ہم اُس پر اپنا سوال رکھیں گے، اور وہ سوال تمہیں ہمیشہ نامکمل رکھے گا۔

یہی لغت اب تمہیں رد کرتی ہے۔ مکمل، اٹل، اور ناقابلِ واپسی انکار کے ساتھ اور لغت کے اس لمحے میں، قابض ریاست کی شکست مکمل ہو چکی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں