آزادی یا دہشت گردی؟ جدوجہدِ بلوچ کا مقدمہ ۔ سفر خان بلوچ (آسگال)

165

آزادی یا دہشت گردی؟ جدوجہدِ بلوچ کا مقدمہ
تحریر: سفر خان بلوچ (آسگال)
دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ جدوجہدِ آزادی سے عبارت ہے۔ ہر قوم، ہر خطہ جب کسی غیر قوم یا بیرونی قوت کے قبضے میں آیا، تو اس نے اپنی شناخت، حقِ خود ارادیت اور آزادی کے لیے مزاحمت کی۔ یہ مزاحمت کبھی سیاسی پلیٹ فارم کے ذریعے ہوئی اور کبھی عسکری تحریک کی شکل میں۔ تاہم، ہر دور میں قابض قوتوں نے ان تحریکوں کو “دہشت گردی” سے منسوب کرنے کی کوشش کی۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ جنہیں “دہشت گرد” کہا گیا، وہ درحقیقت اپنی قوم کے رہنما اور آزادی کے علمبردار تھے۔

ویتنام کی جنگِ آزادی میں ہو چی منہ نے فرانسیسی اور امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت کی۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کو “دہشت گرد” قرار دے کر 27 برس قید میں رکھا گیا، مگر وہ بعد میں امن کا عالمی استعارہ بنے۔ الجزائر نے فرانسیسی نوآبادیاتی قبضے سے آزادی کے لیے برسوں جنگ لڑی، اور ان کی تحریک “نیشنل لبریشن فرنٹ” (FLN) کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس اور دیگر رہنماؤں کو بھی اسی طرح “باغی” اور “دہشت گرد” کہا گیا۔

اسی طرح، لیبیا میں عمر مختار اور کیوبا میں فیڈل کاسترو نے بھی اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے لڑائیاں لڑی، اور تاریخ نے فیصلہ انہی کے حق میں دیا۔ قابضین شرمندہ ہو کر تاریخ میں دفن ہو گئے۔

آج اسی تسلسل میں، بلوچستان کی تحریکِ آزادی ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو نہ صرف تاریخی جواز رکھتی ہے بلکہ انسانی حقوق، سیاسی خودمختاری اور قومی تشخص کے اصولوں پر بھی قائم ہے۔ یہ محض وسائل یا ترقی کا مطالبہ نہیں، بلکہ ایک قوم کی شناخت، زمین، ثقافت اور زبان کی بقا کی جدوجہد ہے۔

بلوچستان کی آزادی کی تحریک کا آغاز 1948 میں اُس وقت ہوا، جب ریاستِ قلات نے پاکستان سے الحاق سے انکار کیا۔ خان آف قلات، احمد یار خان نے 15 اگست 1947 کو قلات کو ایک آزاد ریاست قرار دیا، جو برٹش انڈیا کے ساتھ معاہدے کے تحت نیم خودمختار تھی۔ لیکن مارچ 1948 میں پاکستان نے بزورِ طاقت قلات پر قبضہ کر لیا، اور یوں بلوچ مزاحمت کی تاریخ شروع ہوئی۔

پاکستان نے ہمیشہ بلوچ تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ کبھی اسے چند سرداروں کی بغاوت کہا، کبھی بیرونی سازش کا شاخسانہ۔ لیکن جیسے جیسے تحریک منظم ہوتی گئی، ریاستی بیانیہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ آج جب آرمی چیف اور وزیر اعظم تک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ “بلوچستان میں علیحدگی پسند موجود ہیں”، تو یہ اس امر کا کھلا اعتراف ہے کہ یہ محض پراپیگنڈا کا مسئلہ نہیں رہا۔

سرفراز بگٹی جیسے طاقتور نمائندے جب یہ کہتے ہیں کہ “صرف دو تین فیصد بلوچ آزادی چاہتے ہیں”، تو اگر بلوچ آبادی کا تخمینہ ایک کروڑ لگایا جائے، تو یہ بھی لاکھوں کی تعداد بنتی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بلوچ تحریک نوجوانوں کی اکثریت کی نمائندہ تحریک بن چکی ہے۔

ریاستِ پاکستان نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے جبری گمشدگیوں، جعلی پولیس مقابلوں، ریاستی سرپرستی میں قائم ڈیتھ اسکواڈز، اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی جیسے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے۔ یہ تمام مظالم نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں بلکہ ان کے نتیجے میں ریاست کے خلاف نفرت مزید گہری ہوئی ہے۔ اسی لیے آج بلوچ نوجوان پارلیمانی سیاست سے مایوس ہو چکے ہیں اور مسلح تنظیموں کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔

بلوچ مسلح تنظیموں نے اپنی حکمت عملی جدید خطوط پر استوار کی ہے۔ ماضی میں جو جدوجہد صرف پہاڑوں تک محدود تھی، آج وہ شہری علاقوں میں فدائی حملوں، انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال تک جا پہنچی ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF) جیسی تنظیمیں نہ صرف عسکری محاذ پر فعال ہیں، بلکہ سوشل میڈیا اور عالمی سطح پر اپنی بات بھی مؤثر انداز میں پہنچا رہی ہیں۔

آج کا بلوچ نوجوان سمجھتا ہے کہ اس کا مسئلہ صرف ترقیاتی سہولیات کا نہیں بلکہ قومی شناخت کا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جب تک بلوچ قوم غلام ہے، اس کے وسائل، ثقافت، زبان اور زمین محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ریاستی بیانیہ، جو ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے بلوچوں کو رام کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس جدوجہد کی اصل بنیاد کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

بلوچ آزادی پسندوں کا مؤقف ہے کہ جب تک بلوچستان ایک خودمختار ریاست نہیں بنتا، یہاں کے عوام کو نہ مکمل اختیار حاصل ہوگا، نہ تحفظ۔

آج بلوچ تحریک آزادی اپنے عروج کی جانب بڑھ رہی ہے۔ مسلح تنظیمیں منظم ہو چکی ہیں، نئی نسل بیدار ہے، اور عالمی برادری کی توجہ بھی اس طرف مبذول ہو رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

یہ تحریک محض وقتی یا علاقائی بغاوت نہیں بلکہ ایک منظم، دیرینہ اور قومی جدوجہد ہے جو تاریخی، جغرافیائی اور بین الاقوامی اصولوں پر قائم ہے۔ ریاستِ پاکستان نے اس تحریک کو دبانے کے لیے ہر حربہ آزمایا — عسکری قوت، ریاستی پروپیگنڈا، حتیٰ کہ قتل و غارت — مگر آزادی کی خواہش بلوچ دلوں سے ختم نہ ہو سکی۔

آج بلوچ نوجوان اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک وہ آزاد ریاست کے مالک نہیں بنتے، ان کی شناخت، ثقافت اور وسائل محفوظ نہیں۔ پارلیمانی سیاست محدود ہو چکی ہے، ریاستی حمایت یافتہ جماعتیں عوامی حمایت کھو چکی ہیں، اور زمینی حقیقت یہی ہے کہ مسلح مزاحمت ہی اب بلوچوں کی واحد امید ہے۔

بلوچ تحریک آزادی نہ صرف پاکستان کے لیے ایک سیاسی اور سیکیورٹی چیلنج ہے، بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک اخلاقی امتحان ہے: کیا وہ جغرافیائی مفادات کے تحت خاموش رہے گی، یا مظلوم قوموں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرے گی؟

وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان ریاست اس مسئلے کو محض سیکیورٹی یا معیشت کے زاویے سے نہ دیکھے، بلکہ اسے ایک قومی اور سیاسی مسئلہ تسلیم کر کے تاریخی انصاف کے اصولوں کے تحت حل کرے۔ بصورت دیگر، وہ بھی قابض ریاستوں کی طرح تاریخ میں ظلم و جبر کی علامت بن کر یاد رکھی جائے گی — اور بلوچ جدوجہد مسلسل آگے بڑھتی رہے گی۔ بالآخر ایک دن تاریخ فیصلہ کرے گی: کون ظالم تھا اور کون آزادی کا علمبردار۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں