آئی ایم ایف اور اُس کے قرضے
مصنف: فیڈل کاسٹرو
مترجم: شاہ محمد مری
جائزہ: نزیر بلوچ
فیڈل کاسٹرو کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور کیوبا کی سوشلسٹ حکومت کا صدرتھا۔ اس کا شمار بیسویں اور اکیسویں صدی کے عظیم مارکسی دانش وروں میں ہوتا ہے۔کاسٹرونے کیوبا کے انقلاب کی راہ نمائی کی تھی۔ انقلاب سے قبل کیوبا ایک پسماندہ معیشت والا ملک تھا اور اس کی معیشت امریکی سامراج کے قبضے میں تھی۔کیوبا کے عوام غربت،افلاس اور ناخواندگی میں مبتلا تھے،اور زندگی کی ہر آسائش ونعمت سے محروم تھے۔ فیڈل کاسٹرو کی قیادت اور کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کی راہنمائی میں اس چھوٹے سے ملک نے معیشت، ثقافت، صحت اور خواندگی کے میدانون میں زبردست ترقی کی ہے۔ امریکا اس ملک سے صرف نوےمیل کے فاصلے پرواقع ہے۔ امریکی سامراج نے اس انقلاب کو ناکام کرنے کے لیے کیوبا میں براہ راست مداخلت بھی کی اور اپنے کراۓ کے دہشت پسندوں سے تخریب کاری بھی کرائی، متعدد بار خودفیڈل کو قتل کرنے کی کوششیں کیں اور عرصہء دراز سے اُس کی معاشی ناکہ بندی بھی جاری رکھے ہوۓ ہے۔ لیکن کیوبا کے عوام نے اس تمام جارحیت،تخریب کاری اور دہشت کو ناکام بنایا اور کمیونسٹ پارٹی اور فیڈل کاسٹرو کی قیادت میں،اپنی تخلیقی محنت کیوبا کو ایک ترقی یافتہ سوشلسٹ ملک بنادیا۔ کیوبا کی اس ترقی کا گہرا اثروسطی اور لاطینی امریکا کے ممالک اور چند افریقی ممالک پر پڑا ہے
فیڈل کاسٹرو نے انگولا کے انقلاب کو بچانے اٰسے مستحکم کرنے ایتھو پیاکے انقلاب کو آگےبڑھانے اور جنوبی یمن میں سوشلزم کی تعمیر میں قابل زکر مدد کی کیوبا نا وابستہ ملکوں کی کانفرنس کا ممبر ہے اور فیڈل کاسٹرو اس تحريک کا ممتاز راہ نمارہا اس تحریک کو مضبوط کرنے میں اس کا اہم حصہ ہے۔
فیڈل کاسٹرو جدیدنوآبادیاتی نظام کاگہرا مطالعہ رکھتا تھا اور امریکی سام راج کے قرضوں نے تیسری دنيا میں طرح استحصال کیا اور ان کی ترقی کی راہ میں جسں طرح حائل ہیں اس کا اس نے مفصل تجزیہ کیا ہے
فیڈل کاسٹرو نے دو امریکیون ڈاکٹر جیفری ایلیٹ اور کانگریس کے ممبر مارون ڈیمالی کو ایک مفصل انٹرویودیا جس میں اس نے زندگی کے ہر شعبے کا تفصیلاتز کرہ کیا اس گفت گو میں معاشی امور سے متعلق مسائل کے بارے میں ان کے خیالات کو و جواب کی حیثیت سے چھاپا جارہا ہے قارئین کو اس کتابچہ میں سامراجی قرضوں اور نو آزاد ممالک پران کے سیاسی معاشی اور ثقافتی طورپر پڑنے والے تباہ کن اثرات کے بارے میں تفصیلات ملینں گی۔
مثال کے طور پر محض ایک سال یعنی 1984ء میں لاطینی امریکا نے کس طرح 70 بلین ڈالر کے معاشی وسائل ان صنعتی ممالک کو منتقل کیے تفصیل مندرجہ زیل ہے قرضے اور سودکے طور پر 37.3بلین ڈالر تجارت کی شرائط میں خرابی سے20 بلین ڈالر اس کا مطلب کیا ہوا؟اس اک مطلب یہ ہے کہ اگرلاطینی امریکا نے 1980ء میں برآمد کردہ ایک خاص مقدار سے ترقی یافتہ ممالک سے سوکے قریب چیزیں خریدی تھیں تومال کی اسی مقدار کے بدلے میں اسے 1984ء میں 78.3کے برابر مال حاصل ہوا اگر 95بلین امریکی ڈالر کے برآمدات یا تجارت پر غورکیا جائے تو اس مد میں نقصان20بلین ڈالر سے زیادہ ہوگا یعنی لاطینی مریکا نے20بلین ڈالر مالیت کی معاشی قدر اور سامان تجارت بغیر کسی معاوضے کے منتقل کیے ہیں اور یہ کہ ڈالر کی قیمت10فی صدی چڑھ گئی ہے تو آپ اپنا حقیقی قرضہ معروضی طورپر20بلین ڈالر بڑھا دیتے ہیں، جمع مزکورہ سوداکے اگر ڈالر کی قیمت 30فیصد چڑھ جاۓ، تو آپ کا ڈالروں میں حقیقی قرضہ60بلین ڈالر بڑھ جاتا ہے ڈالروں کی مقدار تو تبدیل نہیں ہوتی مگر ہرڈالرمہنگا ہوتا جاتا ہے اس لیے میں نے محدودالنظرحساب کتاب کیا ہے کہ 1984ءمیں کم ازکم پانچ بلین ڈالر اس چڑھتی ہوئی قیمتوں والے ڈالروں پر سودکے طورپر اداکیے گۓ امریکہ نے ایک واحدسال میں پیسےیا سامان تجارت کی صورت میں70بلین ڈالر سے زیادہ منتقل کیا، پھر ڈالر کی قیمت چڑھ جانے کے5بلین ڈالر مزید ہوۓ چناں چہ 1984ءمیں لاطینی امریکا کی معیشت کو جعل سازی اور ظلم وستم سے کل 45بلین ڈالر سے محرم کردیا گیا دنیا کے اس حصے کو جس کی آبادی ہر 25سال کے بعد دوگنی ہوجاتی ہے اور جس میں خطرناک حدتک سماجی، تعلیمی، رہائشی، صحت عامہ اور روزگار کے مسائل موجود ہیں اس حصے کو 45بلین ڈالر سے جعل سازی کے زریعے محروم رکھا جارہا ہے یعنی اگر عام سودشامل کردیا جاۓ تواسے برآمد کردہ وسائل کے 70بلین ڈالر سے محروم کیا جارہاہے
1981ءمیں امریکا نے 5ملین ٹن چینی درآمد کی تھی جس کا زیادہ ترحصہ تیسری دنیاکے ممالک سے آتاتھا1984ء میں اس نے صرف 7.2ملین ٹن درآمد کی اس کامطلب یہ ہے کہ چینی کی درآمد بہت کم ہوتی جارہی ہے حساب لگایا گیا کہ آنے والے زمانے میں وہ 1.7ملین ٹن سے بھی کم شکردرآمد کرنے لگے گا ۔
ایک بڑی آبادی کی ضرورت کے مطابق خوارک پیداکرنے کے لیے آپ کو ٹیکنالوجی چاہیے ہوتی ہے۔فرٹلا ئزرچاہئیں، کرم کشں ادویات ،مشیزی اور توانائی چاہیے اور آپ کو یہ چیزیں صنعتی دنیا سے حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ جب کہ اب اس کی مقدار 360بلین ڈالر ہے یہ پیسہ کس مد میں گیا؟اس کا کحچھ حصہ تو ہتھیاروں پر خرچ کیاگیا ۔ مثال کے طورپر ارجن ٹینا میں دسیوں بلین ڈالر فوجی اخراجات پر صرف کیے گۓ اور سوئٹزرلینڈ اور امریکا کے بنکوں میں رکھا گیاتھا۔ایک اور حصہ سرمائے کے فرار کی حیثیت سے امریکا اور یورپ کو واپس چلاگیاتھا۔ امیر لوگوں نے اپنی رقم ڈالر میں تبدیل کروادی اور امریکی بنکوں میں ڈپازٹ کردی،اس پیسے کا ایک اور حصہ فضول خرچی کی نزر ہو گیا تھا۔
آپ کہتے ہیں کہ ملکوں کی اخلاقی زمہ داری ہوتی ہے۔جب آپ قوموں کی بات کرتے ہیں تو اصل میں آپ عوام کی بات کررہے ہوتےہیں
۔یعنی مزدوروں،کسانوں،طالب علموں،درمیانے طبقے یعنی ڈاکٹروں،انجینئروں،استادوں،دوسرے پروفیشنلزاور دیگر سماجی پر توں کی بات کررہے ہوتے ہیں۔ عوام کو اس360بلین ڈالر سے کیا ملا۔ جوہتھیاروں پر خرچ کیا گیا،جو امریکی بینکوں میں ڈپازٹ کیا گیا تھا، غلط طورپر خرچ کیا گیا تھا، یا غبن کیا گیا تھا؟عوام کو ڈالر کی قیمت بڑھ جانے سے کیا حاصل ہوا؟انھیں تو ملا ہی کچھ نہیں۔ اور پھر یہ قرضہ اداکس طرح کرنا پڑتا ہے؟ یہ تو عوام نے دینا ہوتاہے۔ مزدوروں نے،کسانوں نے،ہرآدمی کو کم اجرت،کم آمدنی پر بڑی قربانیاں دینا پڑیں گی۔یہ کہاں کی اخلاقیات ہے
1981۔1984ءکے دوران کیوباکی معاشی ترقی بقیہ لاطینی امریکا کے ممالک سے بہت اونچی رہی ہے۔ارجنٹینا میں مجموعی ملکی پیداوار 6فی صد گرگئ،بلیویا میں 16.1فی صدگرگئ۔ برازیل میں 0.3فی صد،چلی میں 5.4فی صد اور یوروگواۓ میں 13.9فی صد۔ میں تو ایک بہت ہی سادہ تجویز پیش کرہاہوں۔ وہ یہ کہ جنگی اخراجات کا ایک چھوٹا سا حصہ اس مدمیں خرچ کیا جاۓ جو 12فیصد سے زیادہ نہ ہو۔اس طرح قرض دینے والی ریاستیں اپنے بنکوں کو قرض دے سکیں گی۔ اس طریقے سے نہ تو بنکوں کونقصان ہوگا اور نہ بنک میں روپیہ جمح کرنے والے کو۔اسلحہ کی دوڑ کے خاتمے اور جنگی اخراجات میں کمی کے مطالبے سے زیادہ مناسب اور زیادہ اخلاقی مطالبہ ہوہی نہیں سکتا۔مگر آپ حیران ہوں گے کہ پیسہ درختوں پر تواگتانہیں،پیسہ کہیں سے توآۓگا۔ آپ حیراں ہوں گے ریگن نے اس کاانتظام کسیے کیا اور ان اخراجات کو کسیے پوراکیا۔میراخیال ہےکہ یہ ایک ایسا سوال ہے جسے امریکی شہریوں کو اپنے آپ سےپوچھنا پڑے گا اور اس کے بعد کیا نتائج نکلیں گے؟ مثال کے طورپر پبلک قرضہ جسے ایک ٹریلین ڈالرتک پہنچنے کے لیے 205سال لگے تھے،ریگن کے صرف تین سالوں میں یعنی1981ءسے 1984ءتک650ڈالر سے زیادہ ہوجائے گا۔میں امریکا کا ٹریلین استعمال کررہاہوں جو برطانیہ کے بلین کے برابر ہے۔یہبل بات زہن میں رکھنی چاہیے کہ فروری کے محض اٹھاہیس دنوں میں یہ خسارہ5 .20بلین ڈالر بڑھ گیا۔پچھلے سال کا تجارتی خسارہ123بلین ڈالر بڑھ۔یہ ایک اور ریکارڈ ہے۔یعنی تین اولمپک ریکارڈز۔ اس سال تجارتی خسارے کا 1400بلین ڈالر کاہے۔فروری میں ہندسہ11.4بلین ڈالر تھا۔ ستمبر 1984ءکے بعد سے یہ سب سے بڑاخسارہ ہے،جب یہ 11.5بلین ڈالرتک چڑھ گیاتھا۔اس نے پانی کوشراب کس طرح بنایا؟اس نےمچھلیوں اور روٹیوں کوکئ گناہ بڑھانےکا معجزہ کس طرح دکھایامیراعقیدہ ہے کہ اس عمل کی وجہ سے اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، 1914ءکی جنگ کے موقع پرزار کی پرانی سلطنت میں معاشی اور سماجی تباہی نے ہی اولین سوشلسٹ انقلاب کو جنم دیا اور ہندوستان کی آزادی،چین کا انقلاب یورپ میں سوشلسٹ برادری اور نوآبادیاتی نطام کا خاتمہ دوسری عالم گیر جنگ سے ہی ہوا۔
اگر آپ صحر میں پیاس سے مررہے ہیں تو آپ کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے،اگر سمندر میں ہیں اور آپ کی کشتی ڈوبتی ہو تو آپ کو ایک تختہ چاہیے ہوتاہے۔اگر آپ کو پھانسی پر چڑھایا جارہا ہو تو مرتے وقت آپ کو کم ازکم رسی کاٹنے کے لیےایک چاقو تو چاہیےہوتاہے۔لاطینی امریکا کے ممالک اور ان کے سیاسی لیڈروں کی حالت ایسی ہی ہے۔
اور یہی سلسلہ گیس اور تیل کی پائپ لائنوں،سڑکوں اور ریلوے لائنوں کے ساتھ بھی ہوتا ہےجو سوشلسٹ اور دیگر یورپی ممالک کو باہم مربوط کرتی ہیں۔اس طرح کی کوئی چیز کیریبین ملکوں میں نہیں کی جاسکتی۔ریاست ہاۓ متحدہ امریکا کے لوگوں کو یادہوگا کہ وہ خودایک زمانے میں انگريزوں کی نوآبادی تھے۔ موجودہ صنعتی ممالک یعنی سابقہ نوآباد کارطاقتیں اور ان کی زیادہ مراعات یافتہ نوآبادیاں مثلاً یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا (جہاں اس کی آزادی کے ایک صدی بعدتک افریقی غلاموں کی تجارت جاری رہی)آج مغربی دنیا میں صنعتی ترقی کا مرکزہیں اور ترقی پزیروں کے لیے تاریخی طورپر زمہ دارہیں
سپین کے پاس عظیم ترین نوآبادکار سلطنت تھی۔ سارا سپینشں زبان بولنے والا امریکا تین سو سال تک سپین کو سونے،چاندی اور دوسری دولت کی ناقابل یقین مقدار مہیاکرتارہا۔تو کیا سپین نے اس سے ترقی کی؟وہ ساراپیسا انگلينڈ،فرانس،ہالینڈ اور دوسرے ممالک میں مرکوز ہوگیا۔ صنعت کاری کے دور میں سپین اس صدی کے اوائل تک یورپ کا سب سے کم ترقی یافتہ ملک رہا۔کیا نوآبادیوں نے سپین کی ترقی میں مددکی؟انھوں نے یورپ کی ترقی میں تومددی،مگرسپین نے ترقی نہیں کی۔سپین کی صنعتی ترقی پچھلی صدی کے آخرمیں شروع ہوئی جب اس سے نوآبادیاں چھں گئیں حتیٰ کہ کیوبا بھی جوکہ آخری نوآبادیاتی سونے کاپیالہ تھا۔ایک دوسری مثال وہ واقعہ یے جو 1974ءمیں شروع ہوا۔تیل کی قیمتوں میں سرپٹ اضافے کے دوران،جب یہ30ڈالر تک بڑھیں،تو کئ لوگوں کا خیال تھا کہ صنعتی ممالک کی معیشت ان قیمتوں کو برداشت نہیں کرسکے گی،حالاں کہ جو ممالک قیمتیں برداشت نہیں کرسکے وہ صرف تیل پیدانہ کرنے والے تیسری دنيا کے ممالک تھے جن کے لیے نابرابرتبادلےکی ایک نئ قسم ابھری۔
ملینوں کے سودے کیے اور بہت بڑی مقدار میں اسلحہ بیچا۔شہنشاه ایران امریکا سے اسلحےکی اپنی خریداری کو کئ گنا بڑھا رہاتھا۔امریکا نے سعودی عرب اور ایران کو دسیوں بلین ڈالر کے جہاز، ریڑار اور ہرقسم کے ہتھیار،جو کہ
یقیناً افسوس ناک امرتھا، بیچے اور بڑے سودے کیے۔صنعتی دنیا کی معیشت کو کہاں نقصان پہنچا؟ تیل کی قیمتوں نے تو تیسری دنيا کے تیل پیدانہ کرنے والے ممالک کی کم زور معیشتوں کو نقصان پہنچایا۔
سواۓ ایک راستہ ڈھونڈنے کے،اور یہ راستہ وہ ڈھونڈ کررہیں گے جو کم ازکم اسی سمت میں ہوگا جس کی میں تجویز کررہاہوں۔ سادہ بات یہ ہے کہ قرض ادانہیں ہوسکتا، آزادی یاموت ان لاطینی امریکا کی حکومتوں کو قرضوں کی منسوخی اور سیاسی موت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں