گل زادی بلوچ کو ایک بار پھر ریاستی حراست میں بےرحمانہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

88

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے اپنے جاری کردہ پیغام میں کہا ہے کہ ہمیں افسوس کے ساتھ اطلاع دینا پڑ رہی ہے کہ گل زادی بلوچ کو ایک بار پھر ریاستی حراست میں بےرحمانہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آج ان سے ملاقات کرنے والے قریبی عزیز نے تصدیق کی ہے کہ ان کے جسم پر گہرے تشدد کے نشانات اور چہرے پر نیل پڑے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بھی گل زادی کو حراست کے دوران اذیت دی گئی، لیکن گزشتہ روز زرغونہ ترین نامی افسر نے ان کی گردن پر دوپٹہ لپیٹ کر انہیں موت کی سنگین دھمکی دی، اور کہا کہ “تمہاری زندگی اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔”

انہوں نے کہا یہ محض قید نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ خواتین کو ریاستی اداروں کے ذریعے جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ تشدد صرف فرد پر نہیں، بلکہ ایک پُرامن قومی تحریک پر حملہ ہے۔ اس ظلم کے ذریعے ہماری اجتماعی مزاحمت کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ نظریات کو زنجیروں میں نہیں جکڑا جا سکتا، اور تحریکوں کو کوڑوں اور بندوقوں سے خاموش نہیں کرایا جا سکتا۔

انہوں نے کہا ہم ہوم ڈیپارٹمنٹ، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ، اور جیل حکام کو اس غیرانسانی سلوک کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گل زادی بلوچ، ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، بیبو بلوچ اور دیگر سیاسی اسیران پر تشدد فوراً بند کیا جائے، ان کی جسمانی و ذہنی سلامتی کی ضمانت دی جائے، زرغونہ ترین سمیت تمام ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

انہوں نے اپنے اپیل میں کہا ہم بلوچستان کے غیور عوام، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور انصاف پسند دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس بربریت کے خلاف مؤثر آواز اٹھائیں۔ یہ لمحہ خاموشی کا نہیں، بلکہ فیصلہ کن مزاحمت کا ہے۔ ظلم کے ہر وار کا جواب، اتحاد، سچائی اور ثابت قدمی سے دیا جائے گا۔