قید کی سلاخوں کے پیچھے سے ایک آواز: سچ، جدوجہد اور امید کا خط

123

قید کی سلاخوں کے پیچھے سے ایک آواز: سچ، جدوجہد اور امید کا خط

پیارے دوستو، ساتھیوں اور عملی رفقاء

امید ہے یہ پیغام آپ کو خیریت اور خوشی کے عالم میں ملے گی۔ آج میں یہ خط کسی کلاس روم یا لیبارٹری سے نہیں، بلکہ ایک جیل کی ٹھنڈی لوہے کی سلاخوں کے پیچھے سے لکھ رہا ہوں۔

جو لوگ مجھے ذاتی طور پر نہیں جانتے، ان کے لیے اپنا مختصر تعارف پیش کرتا ہوں؛ میری تعلیمی جدوجہد 2013 میں اس وقت شروع ہوئی جب میں نے قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ بایو کیمسٹری میں ماسٹرز میں داخلہ لیا۔ یہ راستہ مشکلات، غیر یقینی اور انتہک جدوجہد سے بھرا ہوا تھا – لیکن اپنے دوستوں اور اساتذہ کی بے لوث مدد سے میں نے اپنی ڈگری حاصل کی۔

سائنس اور معاشرے کے لیے بامعنی کردار ادا کرنے کے خواب سے میں نے ایم فل بایو کیمسٹری کے مشکل داخلہ امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس سفر کا سب سے بڑا چیلنج ایک ایسے سپروائزر کا انتخاب تھا جو میرے تحقیقی وژن سے ہم آہنگ ہو۔ خوش قسمتی سے مجھے پروفیسر ڈاکٹر وسیم احمد جیسے عظیم استاد کی رہنمائی ملی، جو صرف ایک ممتاز سائنسدان بلکہ پروفیسر ایمریٹس بھی ہیں۔ ان کی زیرنگراتنی میں نے انسانی جینیاتی بیماریوں پر تحقیق کی – ایسا علم جو میں نے اپنی پی ایچ ڈی (یونیورسٹی، اسلام آباد COMSATS) میں بھی جاری رکھا۔

اللہ کے کرم سے میں نے اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق بھی پروفیسر ڈاکٹر وسیم احمد کی رہنمائی میں مکمل کی۔

پی ایچ ڈی کے دوران مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ میں نے کولمبیا یونیورسٹی، امریکہ میں انسانی جینیاتی بیماریوں پر تحقیق کرنے کا موقع پایا۔ میں اب تک دنیا کے اعلیٰ ترین سائنسی جرائد میں 15 سے زائد تحقیقی مضامین لکھ چکا ہوں۔ مگر آج سائنس میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے میں ایک غیر قانونی قید کا سامنا کررہا ہوں۔

20 رمضان کو سحری کے فوراً بعد، پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں نے میرے گھر پر دھاوا بولا، میرے بھائی کو زبردستی لے جایا گیا، میری ماں اور بہنوں پر تشدد کیا گیا، اور جب میں نے مزاحمت کی تو مجھے بھی مارا پیٹا گیا اور تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ آج مجھے قید ہوئے 30 دن (سے زائد) ہوچکے ہیں، اور اب تک میری گرفتاری کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی گئی۔

میرے خاندان اور دوستوں نے میری رہائی کے لیے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے رابطہ کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہیں کہا گیا کہ اگر حمل “ریاست مخالف سرگرمیوں” میں ملوث ہونے کا اعتراف کرے اور معافی مانگے، تو کچھ ہوسکتا ہے – ورنہ اسے ہرگز نہیں چھوڑا جائے گا۔

تو میں پوچھتا ہوں میرا جرم کیا ہے؟ میں کون سا قانون تھوڑا ہے؟ ایک ہی جواب میرے دل میں گونجتا ہے- میں بلوچ ہوں! اور پاکستان میں بظاہر یہی کافی ہے۔

بلوچ ہونا یعنی ہمیشہ خطرے میں رہنا۔ اس کا مطلب ہے غیر قانونی گرفتاریاں، تشدد، اور غیر انسانی سلوک۔ بلوچستان میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ قانون طاقتوروں کی مرضی کی تابع ہے، اور سچ کو طاقت سے دبا دیا جاتا ہے۔

میں یہ خط کسی ہمدردی کے لیے نہیں بلکہ ایک آواز بلند کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں – اپنے لیے، اور ان تمام بلوچ طلبہ کے لیے جنہیں بے گناہ قید، خموشی اور ظلم کا سامنا ہے۔ میں ان جرائم کا اعتراف نہیں کروں گا جو میں نے کیے ہی نہیں۔ میں اپنی آزادی کے بدلے سچ کا سودا نہیں کروں گا۔

میں اپنے تمام ساتھی طلبہ، اساتذہ، محققین، دوستوں اور علمی رفقاء سے اپیل کرتا ہوں؛ آواز بلند کریں۔ صرف میرے لیے نہیں، بلکہ اُن تمام کے لیے جو خاموشی میں ظلم سہہ رہے ہیں۔

امید، دعا اور محبت کیساتھ

آپ کا اپنا

حمل خان بلوچ
26 اپریل 2025، ہدہ جیل، کوئٹہ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں