شاری، تمہاری عشق زمین تھی اور تمہاری محبوب، آزادی – ماہ ساچ بلوچ

152

شاری، تمہاری عشق زمین تھی اور تمہاری محبوب، آزادی

تحریر: ماہ ساچ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا نے ہمیشہ ہمیں یہ باور کرایا ہے کہ اس جہان میں سب سے عظیم محبت ایک ماں کی اپنے بچے کے لیے ہوتی ہے۔ ماں کی ممتا کو محبت کی انتہا سمجھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب خدا کو اپنی انسان سے محبت کا بیان کرنا پڑا تو اُس نے ماں کی مثال دی۔ فرمایا کہ خدا اپنے بندے سے ستر ماؤں جیسی محبت کرتا ہے۔

ہم نے ہمیشہ یہی سیکھا اور مانا کہ ایک ماں کی محبت اپنے بچے کے لیے تمام محبتوں سے بلند و برتر ہے۔
مگر تاریخ کے بے کراں افق پر ایک ایسی ماں بھی نمودار ہوئی جس نے اس روایت کو ایک نئے مفہوم میں ڈھالا۔ اُس نے ہمیں سکھایا کہ محبت کا دائرہ محض ذاتی رشتوں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ بعض محبتیں ایسی ہوتی ہیں جو ذاتی جذبات سے بلند ہو کر ایک پوری قوم، ایک پوری سرزمین کی محبت میں ڈھل جاتی ہیں۔

یہ وہ ماں تھی جس نے اپنے بچوں سے بڑھ کر اپنی سرزمین اور اس کی آزادی سے محبت کی؛ اپنی قوم کے خوابوں کو اپنے بچوں کے خوابوں پر ترجیح دی، اور اپنی مٹی کی حرمت کو اپنی جان، خاندان اور خون سے زیادہ عزیز رکھا۔

اُس ماں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ آزادی کا تصور محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک عظیم فلسفہ ہے—ایک ایسی مقدس ذمہ داری، جس کے لیے قربانی کا ہر لمحہ فخر کا تاج ہے۔
ایسی ماؤں کی محبت محض فطری نہیں بلکہ شعوری ہوتی ہے۔ ان کی مامتا میں قربانی کی وہ چمک ہوتی ہے جو نسلوں کو جلا بخشتی ہے، اور ان کی آغوش میں صرف بچے نہیں، پوری قومیں پروان چڑھتی ہیں۔
ان کی گود سے ایسے فرزند اٹھتے ہیں جو زنجیروں کو توڑ کر تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں۔

یہ وہ مائیں ہیں جنہوں نے ہمیں سکھایا کہ حقیقی محبت، ذاتی وابستگی سے اوپر اٹھ کر اجتماعیت کے وقار اور سرزمین کی آزادی میں پنہاں ہوتی ہے۔

وہ ایک ایسی ماں تھی جس کے دل میں وطن کے لیے بے پناہ محبت اور بے لوث قربانی کا جذبہ پروان چڑھ رہا تھا۔ ایک معلمہ اور خاندان کی خوشحالی کی علامت ہونے کے باوجود، اُس نے اپنی ذاتی راحتوں کو پیچھے چھوڑ کر اپنی جان کو وطن کی آزادی کے ناطے وقف کر دیا۔

جب اُس نے اپنے بچوں کو آخری بار گلے لگایا، تو ہر لمحہ ایک نغمے کی مانند اُس کے دل سے جاری ہو رہا تھا—محبت، درد اور عزم کے سنگم کا ایسا حسین امتزاج کہ جیسے وقت تھم گیا ہو۔
اُس لمحے میں نہ صرف بچوں کے چہروں پر امید کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی، بلکہ ایک ماں کے دل کی گہرائیوں میں چھپی اُس تنہائی اور خالی پن کی بھی عکاسی ہو رہی تھی، جو قربانی کی راہ پر چلنے والے ہر شخص کو محسوس ہوتی ہے۔

اُس کے لیے الوداعی لمحے صرف ایک ذاتی جدائی نہیں تھے بلکہ ایک عظیم فلسفے کی عملی ترجمانی تھے۔
جب اُس نے اپنے شوہر کو آخری بار دیکھا، تو اُس کے دل میں ملے جلے جذبات—غم کی نمی اور فخر کی چمک—صاف جھلک رہی تھیں۔ یہ سب بتا رہا تھا کہ یہ جدائی ایک مشن کا لازمی حصہ ہے۔

اُس لمحے میں اُس کی آنکھوں میں ایک خاموش سی تسکین بھی جھلک رہی تھی، جیسے وہ جانتی ہو کہ اُس کا ہر قدم قوم کی تقدیر میں ایک نیا رنگ بھرنے کا باعث بن رہا ہے۔
اس داخلی سفر میں اُس نے اپنے آپ کو فنا کرکے ایک نئی روح کو جنم دیا، جس کی جھلک اُس کی ہر قربانی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

اس روحانی جدوجہد کی گونج میں وہ معروف اقوال بھی سنائی دیتے ہیں جو انسانیت اور خدمتِ خلق کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مہاتما گاندھی کے الفاظ اُس کے دل کا حصہ بن چکے تھے:
“خود کو بھول جانے کا بہترین طریقہ دوسروں کی خدمت ہے۔”
اسی فلسفے نے اُس کی روح کو نئی پرواز دی اور یہ یقین دلایا کہ ذاتی قربانی کے بغیر کوئی عظیم تبدیلی ممکن نہیں۔

اسی طرح، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے الفاظ—“سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آپ دوسروں کے لیے کیا کر رہے ہیں؟”—نے اُس کے اندر ایک روشن مشعل روشن کی، جس سے اُس نے اپنی زندگی کا مقصد واضح کر لیا: کہ وہ اپنی قربانی کے ذریعے قوم کے مستقبل کی بنیاد رکھ رہی ہے۔

یہ داستان محض ایک ماں کی ذاتی جدوجہد نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کی آزادی اور خودداری کی ترجمانی ہے۔
اُس کی قربانی میں درد اور امید کا ایسا امتزاج تھا کہ وہ خود ایک نئی صبح کی پیامبر بن گئی۔
ہر وہ لمحہ جب وہ اپنے بچوں کو الوداع کہتی، اُس کی روح میں ایک عجیب سی خوشی جھلکتی—خوشی اس یقین کی کہ اُس کی قربانی سے ایک آزاد اور روشن مستقبل کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔

یہ جذبہ، جو ایک ماں کو اپنے بچوں اور پیارے شوہر سے رخصت ہوتے وقت گھیر لیتا ہے، دراصل عشقِ وطن کی وہ انتہا ہے جہاں ذاتی دکھ اور جدائی بھی ایک عظیم مقصد کی راہ میں فنا ہو جاتے ہیں۔

یوں اُس کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حقیقی آزادی اور عظیم قربانی کا فلسفہ صرف کتابوں یا یادوں تک محدود نہیں، بلکہ وہ ہر اُس دل میں زندہ ہے جو وطن کے لیے اپنی جان نچھاور کر دینے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

اُس کی بے لوث جدوجہد میں چھپی وہ گہری تنہائی، خالی پن، اور ساتھ ہی محسوس ہونے والی تسکین، ایک ایسی داستان ہے جو وقت کے ساتھ امر ہو جائے گی، اور ہر نسل کو یہ سبق دیتی رہے گی کہ عشقِ وطن کی خاطر ذاتی قربانیاں دینا دراصل انسانیت کی بلند ترین نشانی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں