پاکستان کے صوبہ سندھ میں دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر کے خلاف جاری احتجاجی تحریک پانچویں روز میں داخل ہو گئی ہے۔ اس دوران سندھ اور پنجاب کے درمیان تمام اہم زمینی راستے، قومی شاہراہیں، عدالتیں اور کراچی کی بندرگاہوں کے مرکزی راستے بند کر دیے گئے ہیں۔
‘سندھو دریا بچاؤ تحریک’ کے نام سے جاری اس احتجاجی مہم کی قیادت مختلف قوم پرست جماعتیں، وکلا تنظیمیں، طلبہ گروہ اور سماجی حلقے کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا مؤقف ہے کہ دریائے سندھ سے پنجاب کی جانب چھ نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ سندھ کے آبی، زرعی اور معاشی وسائل پر قبضے کی کوشش ہے۔
سندھ اور پنجاب کے بارڈر پوائنٹس جیسے کموں شہید، دیرا موڑ اور ببرلو سکھر پر مسلسل دھرنے دیے جا رہے ہیں۔ کراچی کے داخلی و خارجی راستوں، خاص طور پر کاٹھوڑ پل کے مقام پر ٹریفک کی آمد و رفت مکمل بند ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت ان نہروں کی تعمیر کا نوٹیفکیشن منسوخ نہیں کرتی۔
سندھ وکلا کونسل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے 72 گھنٹوں میں ان منصوبوں کو واپس نہ لیا تو سندھ سے پنجاب جانے والی تمام ریلوے لائنز بھی معطل کر دی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ کی تمام عدالتوں میں بھی کام معطل کر دیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے سندھ حکومت کے وزیر شرجیل میمن سے رابطہ کر کے مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم قوم پرست جماعتوں اور وکلا تنظیموں نے حکومتی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے بداعتمادی کا اظہار کیا ہے۔
یہ تحریک اُس وقت شروع ہوئی جب حکومت پاکستان اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے غیر ملکی سرمایہ کاری سے ’گرین پاکستان انیشیئیٹو‘ کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت فوجی کمپنی ایس آئی ایف سی کو دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کی ذمہ داری دی گئی، جس پر سندھ میں شدید سیاسی اور سماجی ردعمل سامنے آیا۔
تحریک کی قیادت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما سید زین شاہ، جیئے سندھ اتحاد، اور مختلف وکلا، طلبہ اور سماجی تنظیمیں کر رہی ہیں، جن کا مشترکہ مؤقف ہے کہ سندھ کے آبی و زمینی وسائل کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔