بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تھم نہ سکا، مختلف علاقوں سے مزید 13 افراد پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے تحصیل پسنی میں تین افراد کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا ۔
اطلاع کے مطابق ڈگری کالج پسنی میں فرسٹ ایئر کے طالب علم عامر بلوچ ولد داد بخش اور عثمان بلوچ ولد عبدالغنی کو گزشتہ شب پسنی میں ایک حجام کی دوکان سے اُٹھایا گیا۔
دونوں کی فیملی نے میڈیا کو بتایا کہ دونوں نوجوانوں کو کام کے دوران اُٹھایا گیا جبکہ وارث مومن نامی ایک نوجوان جو سردشت کا رہائشی بتایا جاتا ہے، کو دوران ڈیوٹی آر ایچ سی پسنی سے اُٹھایا گیا۔
مذکورہ لاپتہ نوجوانوں کی فیملی نے حکام بالا سے اُُنکی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ ان نوجوانوں کا کسی بھی سیاسی سرگرمیوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے جبکہ عامر بلوچ ایک طالب علم ہے۔
لاپتہ عامر کی لواحقین نے بتایا کہ ہمارے خاندان کے فرد، عامر خان، کو 29 اپریل 2025 کو شام 7 بجے کے قریب پسنی میں ایک حجام کی دکان پر کام کے دوران پاکستانی خفیہ اداروں نے اغوا کر لیا۔ عامر خان پسنی ڈگری کالج میں پہلے سال کے طالبعلم ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی میں بھی پسنی کے کئی طلباء کو اسی طرز پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ افسوسناک طور پر ان میں سے کئی نوجوان بعد میں مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں ملے۔
لواحقین نے کہاکہ ہمیں عامر خان کی زندگی کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں۔ اس کا واحد “جرم” یہ ہے کہ وہ ایک بلوچ طالبعلم ہے۔
کیچ، تربت سے آمدہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز دو نوجوان شے حق بلوچ جنکی عمر 17 سال بتائی جارہی ہے ،اور آدم سلیم جوکہ 16 سال کے بتائے گئے ہیں کو پاکستانی فورسز نے گرفتار کیا جوکہ بعد ازاں نامعلوم مقام پر منتقل کردیئے گئے ہیں۔
شے حق کی ہمشیرہ نے سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ انکی جان کی حفاظت کے حوالے سے پریشان ہیں، لہذا انکی بازیابی یقینی بنایا جائے۔
شے حق کی ہمشیرہ نے سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ انکی جان کی حفاظت کے حوالے سے پریشان ہیں، لہذا انکی بازیابی یقینی بنایا جائے۔
مزید تُربت ڈی بلوچ سے ایک نوجوان اغوا، اس سے پہلے ان کا ایک بھائی بھی لاپتہ کیاگیا تھا۔
خاندانی ذرائع کے مطابق عبدالمجید ولد عبدالغنی کو گزشتہ رات کراچی سے تُربت آتے ہوئے راستے میں ڈی بلوچ کے مقام پر نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عبدالمجید اس وقت اپنے بچوں کے ہمراہ گاڑی کے انتظار میں کھڑے تھے جب چند نامعلوم افراد نے انہیں زبردستی گاڑی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے جایا۔
اہلِ خانہ کے مطابق یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل عبدالمجید کے ایک بھائی کو بھی اسی طرح جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا، جسے کچھ عرصے بعد رہا کر دیا گیا۔
عبدالمجید کے خاندان نے واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عبدالمجید کی فوری اور محفوظ بازیابی کے لیے اقدامات کریں۔
دریں اثنا تربت سے اطلاع ہے کہ احسان فاروق والد نعیم جو خیر آباد کا رہایشی ہے ۔ جو 24 اپریل 2025 کو تُربَت سے دبئی جانے کیلے کراچی کے طرف جا رہا تھا تلار چیک پوسٹ پر پاکستانی فورس نے اُٹھا کر جبری گمشدگی کا شکار بنا دیا ہے۔ احسان کے بارے میں فیملی کو کوئی بھی معلومات فرائم نہیں کی جا رہی ہے۔
اسی طرح گزشتہ شب سبی کے علاقے لہڑی کے مقام پر پاکستانی فورسز نے گھروں پر چھاپہ مار کر پانچ افراد کو لاپتہ کر دیا ۔
ڈیرہ بگٹی سے بھی پاکستانی فورسز نے ایک شخص کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا ہے ۔ تاہم انکی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے ۔