اسلام کا پاکستانی ورژن
تحریر: مولانا عباد الرحمٰن بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج بیبو کی بہن نے بیبو، گل زادی اور دیگر اسیران پر انسانیت سوز تشدد کے جو لرزہ خیز حالات رو رو کر سنائے، وہ دل چیر دینے کے لیے کافی تھے۔ ان اذیت ناک مناظر کے آگے الفاظ بےبس، اور خاموشی مجرمانہ محسوس ہوتی ہے۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ وہ مذہبی جماعتیں، جو مظلوموں کے لیے آواز بلند کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، ان کے ہاں مظلوم کی شناخت بھی اسٹیبلشمنٹ کی منظوری سے طے پاتی ہے۔ ان کے یہاں اسلام بھی وزارتِ داخلہ کی ہدایات پر اتارا جاتا ہے، اور ہمدردی کے دائرے بھی خارجہ پالیسی کے تابع ہوتے ہیں۔
جس ملک میں “جس کی لاٹھی اُس کی بھینس” قانون کا بنیادی اصول ہو، وہاں انصاف طاقتور کے جوتے تلے سسکتا ہے۔ جب قانون طاقتور کی لونڈی اور واعظ کا وعظ ریاستی بیانیے کا ترجمان بن جائے، تو وہاں بےگناہ خواتین کے کمروں اور بیت الخلاؤں میں کیمرے نصب ہوتے ہیں، اور مرد اہلکار ان پر تشدد کرتے ہیں۔ ایسے ظلم پر اگر منبرِ رسول خاموش ہو، اور علما کرام موجودہ دور کے فرعون کو للکارنے کی بجائے بنی اسرائیل کے مرے ہوئے فرعونوں کے قصے دہراتے رہیں، تو ان کی خطابت ایمان جگانے کے بجائے ضمیر سلانے کا کام کرتی ہے۔
آج دنیا کی نظریں فل س طین پر ہیں—اور بجا طور پر۔ وہاں ایک درندہ صفت ریاست دن دہاڑے بچوں، عورتوں اور نہتے شہریوں پر بم گرا رہی ہے۔ لیکن ایک بات تسلیم کرنا ہوگی کہ اسرائیل کم از کم اپنے ظلم کو تسلیم کرتا ہے، اس کی پالیسی واضح ہے: وہ طاقت کے بل بوتے پر قابض ہے اور اس پر نادم بھی نہیں۔ برعکس اس کے، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر عالمی برادری سے ہمدردی مانگتا ہے، حالانکہ اس کا اپنا دامن مظلوم بلوچ، پشتون، سندھی اور دیگر محکوم اقوام کے خون سے رنگین ہے۔
یہی وہ کھلا تضاد ہے جو ریاستِ پاکستان کے کردار کو دنیا بھر میں مشکوک بنا دیتا ہے۔ اسرائیل کم از کم یہ نہیں کہتا کہ جو فلس ط ینی ظلم کی بات کریں، وہ “غدار” ہیں۔ مگر،پاکستان اپنے مظلوموں کو غدار، ایجنٹ اور دہشت گرد قرار دیتا ہے، تاکہ ان کی فریاد سننے کی کوئی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔
ابھی حال ہی میں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور دیگر بلوچ خواتین گزشتہ 27 گھنٹوں سے جیل میں بھوک ہڑتال پر ہیں، اور اُن کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی ظلم کشمیر یا فل س طین میں ہوتا، تو کیا مذہبی جماعتوں کی زبانیں اسی طرح سِلی ہوتیں؟ یا پھر جلسے، جلوس اور خطابات میں قرآنی آیات سنا کر عوام کو مزاحمت کے لیے تیار کیا جاتا۔
اور اگر فرض کر لیا جائے کہ بلوچ واقعی غدار ہیں، تو پھر کیا چین میں ایغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر بھی خاموشی برتی جائے گی؟ کیوں پاکستان کی مذہبی جماعتیں ایغور مسلمانوں کے حق میں ایک لفظ نہیں بولتیں؟ وجہ صاف ہے: طاقتوروں کی اجازت نہیں۔ کیونکہ اگر ایغور مظلوم ثابت ہو گئے، تو چین کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بےنقاب ہو جائے گا—اور یوں ہمالیائی دوستی کا رومان ٹوٹ جائے گا۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں کس اسلام کی نمائندگی کرتی ہیں؟ وہ اسلام جو حکمرانوں کے احکام کا تابع ہے؟ یا وہ اسلام جو مظلوم کی حمایت میں بےخوف بولتا ہے؟ اگر اسلام صرف منظور شدہ مظلوموں کے لیے مخصوص ہے، تو یہ اسلام نہیں—یہ مفاد پرستی ہے، اور اس کے علما داعی نہیں، درباری ہیں۔
ایسا ہی کچھ حال ان قوم پرستوں کا ہے جو دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے احتجاجی دھرنوں میں تصویریں کھنچواتے ہیں، مگر جب اُن کی اپنی قوم کی بیٹیاں قید میں انصاف کی بھیک مانگ رہی ہوں، تو اُن کی زبانوں پر تالے پڑ جاتے ہیں، اور اُن کے ضمیر مفادات کی چادر میں لپٹ جاتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم یہ پردے ہٹا دیں۔ مذہب، سیاست، سرداری—سب نقاب ہیں۔ ان کے پیچھے صرف دو کردار بچے ہیں: ایک ظالم، اور دوسرا مظلوم۔ اگر آپ مظلوم کے ساتھ نہیں، تو یاد رکھیے، خاموشی کبھی غیرجانبداری نہیں ہوتی، بلکہ ظالم کی حمایت ہوتی ہے۔
آج بلوچ صرف اپنے حق کی بات نہیں کر رہا، وہ اس ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ اگر یہ جھنجھوڑ اب بھی کسی کو بیدار نہ کر سکے، تو پھر وہ وقت زیادہ دور نہیں جب سچائی کا خون صرف بلوچستان کی گلیوں میں نہیں، بلکہ پورے ملک کی رگوں میں دوڑتا ہوا دکھائی دے گا۔
اور آخر میں، یہ سوال اُن میر و معتبر، سرداروں اور نوابوں سے ہے، جنہوں نے اپنی مونچھوں کو غیرت کی علامت بنا رکھا ہے اور اپنے نام کے ساتھ لمبے چوڑے القابات سجا رکھے ہیں:
کیا بلوچ قوم کی غیرت اور جُرأت محض کتابی ابواب میں ہی رہ گئی ہے؟ کیا زندہ لاشیں بھی قوم کہلاتی ہیں؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں