27 مارچ 1948 کو بلوچستان کی آزاد اور خودمختیار ریاست پر حملہ کیا گیا۔‏ بی ایس او آزاد

139

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان پر ریاست کی غیر انسانی اور طاقت کے زور پر قبضہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو قابض پاکستان اپنے جھوٹے مطالعہ پاکستان اور نام نہاد دانشوروں کے ذریعے بدل نہیں سکتا، انگریزوں کی جانب سے اپنے مفادات کے تحت جس طرح بلوچستان پر قابض پاکستانی قبضے کی حمایت کرتے ہوئے معاونت کی گئی وہ ایک تاریخی غلطی تھی جس کا غمیازہ آج خطے کی تمام قومیں بھگت رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ایک آزاد بلوچستان حکومت کی موجودگی میں آج یہ خطہ امن اور خوشحالی کا مرکز بن جاتا مگر برطانیہ نے اپنے وقتی مفادات کی خاطر پاکستان کو بلوچستان پر قبضہ کرنے کیلئے اکسایا اور بلوچستان، اور خطے کے دیگر اقوام کو ایک مصیبت میں ڈال دیا۔

ترجمان نے کہاکہ آج پاکستان خطے بھر میں دہشتگردی کا جڑ بنا ہوا ہے، دہشتگروں کو سپورٹ کرنا اور انہیں دیگر ممالک کے خلاف استعمال کرنا پاکستان کا کاروبار بن چکا ہے جبکہ دہشتگردی کے ساتھ ساتھ جبری قبضہ کیے گئے قوموں پر جبر اور وحشت کے ذریعے اپنا قبضہ برقرار رکھنا اس ریاست کی حقیقت بن چکی ہے۔ دنیا میں آج جہاں کہیں بھی کوئی دہشتگردی ہوتی ہے اس کا پاکستان سے کسی نہ کسی طرح کا لنک ضرور پایا جاتا ہے کیونکہ پاکستان دہشتگردوں کا مرکز ہے جس کی وجہ سے بلوچ جیسے پرامن قوم آج جنگی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

بیان میں کہاکہ ‏پاکستانی ریاست کو بلوچستان میں اپنے اباواجداد کی غلطی کو رد کرتے ہوئے بلوچستان پر قبضہ کو ختم کرنا چاہیے تاکہ بلوچ اپنی آزاد ریاست میں ایک خوشحال قوم کی حیثیت سے رہ کر خطے میں امن اور خوشحالی میں کردار ادا کر سکیں۔ 27 مارچ 1948 کو بلوچ ریاست پر حملہ کرتے ہوئے پاکستان نے بلوچ قوم کیلئے ماسوائے مزاحمت کے کوئی چارہ نہیں چھوڑا جبکہ اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کیلئے پاکستان نے بلوچ قوم کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے جس کی نظیر خطے میں نہیں ملتی۔ آج پاکستان نسل کشی کی پالیسی پر گامزن ہوتے ہوئے بلوچ قوم کے خلاف طاقت اور وحشت کے ذریعے اپنی ناکام نظریہ مسلط کرنا چاہتی ہے، بلوچ پنجابی کی اس نظریے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا جس میں مذہب کی بنیاد بناکر ریاست قائم کیا جائے اور ریاست قائم کرنے کے بعد دیگر مسلمان ریاستوں کے اندر دہشتگردی کریں جس کی مثال اپنی بنیاد سے دہشتگرد پاکستان ریاست کی جانب سے افغانستان مین دہشت پھیلانا شامل ہے۔ جو پنجابی ریاست افغانستان میں قتل و غارت کا بازار گرم رکھنا چاہتا ہے وہی بلوچ افغانستان کو ایک دوست ممالک کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ پاکستان کی جس ناکام نظریے کے خلاف بلوچ قوم نے بنیادی دن سے مزاحمت کا راستہ اپنایا وہی بنگلادیش کی جنم نے اس کیچھڑ کو مزید واضح کر دیا لیکن قابض ریاست بلوچ قوم کو کمزور سمجھ کر اس پر طاقت کے زور پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے جو بلوچ قوم کسی بھی طرح قبول نہیں کرے گی اور اس جبری قبضے کے خلاف اپنی مزاحمت میں دن بدن شدت لاتی رہے گی۔ آزاد بلوچ ریاست پر جبری قبضے سے پہلے نومولود نام نہاد اسلامی ملک کے سربراہ جناح نے بلوچستان سے الحاق کے نام نہاد فیصلہ سے جب بلوچ نمائندوں کو آگاہ کیا تو بلوچ پارلیمنٹ نے اس کے خلاف سخت ردعمل دیا جبکہ اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا لیکن باآخر جناح نے بلوچ قوم کے ساتھ غداری کرتے ہوئے ایک ہمسایہ ملک بننے کے بجائے ایک قابض کی شکل اختیار کی اور جبری قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

‏بیان کے آخر میں کہا کہ قابض ریاست اور اس کے عوام کو چاہیے کہ وہ حقیقی تاریخ کو جھٹلانے اور زور زبردستی بلوچ قوم کو اپنے ساتھ ملانے کی ناکام کوشش کرنے کے بجائے قابض فوج کو مطئمن کریں کہ وہ بلوچستان پر سے اپنی جبری قبضے کا خاتمہ کریں جو 27 مارچ 1947 کو کیا گیا۔ بلوچ قوم نے کبھی بھی اس قبضے کو قبول نہیں کیا ہے اور کبھی قبول نہیں کرینگے۔ دنیا کی کوئی باشعور قوم اپنی ریاست کی آزادی اور خودمختیاری پر کمپرومائز نہیں کر سکتا ہے۔