وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں ریگولر آرمی اور دیگر فوجی دستے شہری آبادیوں میں تعینات ہیں، اور عملاً پورا بلوچستان ان کے کنٹرول میں ہے۔ اس صورتحال سے نہ تو ریاست اپنے مطلوبہ مفادات حاصل کرپائی ہے اور نہ ہی عوام کو امن مل سکا ہے۔ بلکہ فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ ہوا ہے اور عوام میں بےچینی بڑھ رہی ہے۔
ان خیالات کا اظہار ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں آئے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اتوار کے روز احتجاج کو 5762 دن مکمل ہوئے۔
کوئٹہ سے سیاسی و سماجی کارکنان نور محمد بلوچ، فیض محمد بلوچ، عزیز بلوچ اور خواتین نے آکر اظہارِ یکجہتی کیا۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ بلوچوں کا قومی احساس ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کیا جانا چاہیے، لیکن ریاست اس کے برعکس اسے ختم کرنے کے لیے بلوچستان میں جبر کا سہارا لے رہی ہے، جس میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت اقدامات شامل ہیں۔ یہ اقدامات ریاستی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جنھیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی ریاست کبھی انھیں جائز ثابت کرپائے گی۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں اجتماعی سزا کی پالیسی کے تحت نہ صرف بلوچ سیاسی کارکنوں بلکہ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں (15 مارچ 2025) جبری لاپتہ طالب علم رہنما زاھد بلوچ کے بھائی شاہ جہان کرد کو ان عناصر نے قتل کیا جن کی پشت پناہی ریاست کرتی ہے۔ یہ قابلِ مذمت اور افسوسناک ہے کہ جو لوگ پُرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں، انھیں بھی قتل کیا جاتا ہے اور ان کے خاندانوں کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ زاھد کرد گزشتہ گیارہ سالوں سے جبری طور پر لاپتہ ہے اور اب اس کے خاندان کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، حالانکہ وہ کسی ایسی سرگرمی کا حصہ نہیں جو ریاست یا اس کے حکام کی نظر میں ناپسندیدہ ہو۔ شاہ جہان نہ تو سیاست کرتے تھے اور نہ ہی کسی سیاسی یا سماجی سرگرمی میں حصہ لیتے تھے، جن پر یہاں غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے، لیکن اس کے باوجود انھیں ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔