نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی آرگنائزر ایڈوکیٹ شاہ زیب اور دیگر رہنماؤں نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ
پاکستان کوایک کثیر القومی ریاست کہا جاتا ہے، جس میں مختلف اقوام اپنے اپنے تاریخی جغرافیائی حدود میں رہتے ہیں۔اگر اسی تناظر میں بلوچ سر زمین کا جائزہ لیا جائے تو سابقہ انگریز نوآبادکار نے اپنے استعماری عزائم کو تکمیل دینے کے لئے ایک حصے کو ڈیورنڈ لائن کے ذریعے افغانستان کے حوالے کیا،جبکہ دوسرے حصے کو گولڈ اسمتھ لائن کے ذریعے ایران کے قبضے میں دے دیا گیا اور تیسرےبڑے حصے کو اپنے نوآبادیاتی زیر انتظام میں شامل کر دیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے تباہ کاریوں کے بعد انگریز سامراج کو معاشی دیوالیہ ہونے کا خطرہ محسوس ہوتے ہی ایک ایک کر کے پوری دنیا سے اپنے کالونی کو آزاد کرتےچلے گئے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سابقہ قلات ریاست بلوچ کی مرکزی حکومت ہوا کرتا تھا اور انگریزوں کے برصغیر آمد سے قبل بلوچ ایک آزاد قوم کے حیثیت سے قبائلی ڈھانچے میں ملبوس اپنی معاشرتی زندگی بلوچ رسم و رواج کے مطابق چلا کر اپنےثقافتی اور باہمی میل جول کو نبھاتے تھے ۔ اسی قومی ورثے اور تاریخی شناخت کے روشنی میں 11اگست 1947 کو انگریز نوآبادکار نےسابقہ قلات ریاست کی آزادی کو بحال کیاتھا لیکن آزادی کے 255 دن گزارنے کے بعد ایک معاہدے کے ذریعے سابقہ قلات ریاست کو پاکستان کے ساتھ جبری طورپر شامل کیا گیا ، جس کے ذریعے آ ج تک ایک صوبے کو بالادست حیثیت فراہم کر کے بلوچ و دیگر محکوم اقوام کو زیر دست رکھا گیا۔
انہوں نے کہاکہ پہلے مرحلے میں بلوچ سرزمین کو ’’ون یونٹ‘‘ کے نام سے ضم کر کے بلوچ کے تاریخی شناخت کو مٹانے کی کوشش ہوئی اسکے بعد مختلف حربوں سے بلوچ سر زمین کو پاکستان کے چار وں صوبوں میں تقسیم کیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں بلوچ ساحل وسائل پر بلوچستان کا اختیار ختم کر کے وفاق کو تمام معدنی وسائل تقویض کر دئیے گئےاور بلوچ کے قدیم آبادیوں کو انکے آبائی سر زمین سے سابقہ انگریز سامراج کے نوآبادیاتی کالے قانون لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے ذریعے جبراَ بیدخل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو بدستور جاری ہے۔ تیسرے مرحلے میں ریکوڈک، سیندک، سوئی اور دیگر بلوچ علاقوں میں معدنیات نکالنے کے لئے عالمی سرمایہ دارانہ سامراجی کمپنیوں کے ساتھ گٹھ جوڑقائم کر کے بد ترین طریقے سے بلوچ کے قومی وسائل کا استحصال کیا جا نے لگا، جبکہ گوادر پروجیکٹ اور چائنا پاکستان اقتصادی راہداری معاہدوں میں بلوچ قوم کو مکمل نظر انداز کر کے خفیہ معاملات کو عملی جامعہ پہنایا جا رہا ہے، جس سے تمام سیاسی حلقوںبلخصوص بلوچ قوم میں شدید تشویشناک صورتحال پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ مذکورہ حالات کو بیان کرنے کا مقصد صحافی حضرات کا توجہ بلوچستان کے موجودہ سیاسی صورتحال کی جانب مرکوز کرانا ہے۔ 1948 سے لیکر اب تک بلوچ سر زمین پر چار انسرجنسیاں اپنے عروج و زوال کو پہنچے ہیں لیکن پانچویں موجودہ انسرجنسی پچھلے دو دہائیوں سے برقرار ہے بلکہ اب باقاعدہ اس میں شدت دیکھنے کو مل رہی ہے، دوسری جانب بلوچ انسرجنسی کے رد عمل میں پاکستان کے بالادست حکمران طبقہ بجائے سیاسی طرز پر اس مسئلے کا حل نکالتا، بالکل اسکے بر عکس پوری طاقت کے ساتھ ماورائے آئین جبری گمشدگی کے معاملے کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ آپ کو یاد ہوگا کہ نومبر 2023 میں تربت کے رہائشی بالاچ کو جعلی مقابلے میں شہید کرنے کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ایک لانگ مارچ اسلام آباد تک لے جایا گیا تھا، وفاقی حکومت ایک ریاست کا کردار ادا کرتے ہوئے بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کو سنجیدہ لے کر مستقل اور دیر پا حل نکالنے کے لئے ان کی داد رسی کرتے، لیکن اسکے برعکس واٹر کینن اور شیلنگ کے ذریعے ان کا استقبال کر کے انہیں اذیت دیا گیا ۔ اسکے علاوہ احتجاجی کیمپ میں لواحقین کو ہراساں کرنے کے لئے ریاستی اداروں کے ذریعے اوچھے ہتکھنڈے بھی اپنائے گئے ۔ اس سارے مایوس کن صورتحال کے باوجود لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی سمیت دیگر سیاسی تنظیموں کے کارکنان نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور پر امن طریقے سے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے آواز بلند کر کے اظہار رائے کے آئینی حق کو جائز طریقے سے استعمال کیا ۔
انہوں نے کہاکہ رواں ماہ رمضان میں ایک دفعہ پھر بلوچستان کے حالات مخدوش ہو گئے ہیں، جہاں موجودہ انسرجنسی کے رد عمل میں ریاستی رویے نے شدت اختیار کر لیا ہے۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ 20 مارچ 2025 کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ممبر بیبرگ بلوچ اور انکے بھائی ڈاکٹر حمل بلوچ سمیت ، بولان میڈیکل کالج کوئٹہ کے وائس پرنسپل ڈاکٹر الیاس بلوچ کو انکے گھروں سے شب ءِ تاریکی میں قانون نافذکرنے والے اداروں نے چادر و چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا، اس بے بنیاد گرفتاریوں کے خلاف بی وائی سی کے قیادت نے اگلے روز 21 مارچ 2025 کو بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دیا، جسے بلوچستان اور وفاق کے مطلق العنان حکمرانوں نے کوئٹہ پولیس کے ذریعے پوری طاقت کے ساتھ واٹر کینن، آنسو گیس شیلنگ اور فائرنگ کے ذریعے انکے پر امن احتجاج کو سبوتاز کیا ۔کوئٹہ پولیس کے فائرنگ کےدوران تین بلوچ نوجوان شہید ، جبکہ درجنوں سیاسی کارکنان سمیت خواتین، بزرگ و بچے بھی شدید زخمی ہوئے تھے۔
انہوں نے کہاکہ مظاہرین نے اِن نفرت انگیز روئیوں کے باوجود پُر امن سیاسی جدوجہد کا راستہ اپناتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے سربراہی میں انصاف کے متلاشی ہو کر ایک دفعہ پھر تینوں شہداء کے میتوں کے ساتھ سریاب روڈ کوئٹہ میں دھرنا دیا جسے اگلے روز صبح کے وقت 22 مارچ 2025 کو ایک دفعہ پھر کوئٹہ پولیس نے دھاوا بول کر تینوں میتوں کو قبضے میں لے کر اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت درجنوں سیاسی کارکنان کو گرفتار کیا ۔ بعد میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں پر مختلف بے بنیاد الزامات لگا کر انہیں جیل منتقل کرکے 3MPO کے تحت نظر بند کیا گیا ۔ ڈاکٹر ماہ رنگ اور دیگر سیاسی کارکنان کے گرفتاری کے رد عمل میں بی وائی سی کی جانب سےکوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی دھرنے دیئے گئے ، جسےبلوچستان کے تمام جمہوری حلقوں میں پزیرائی ملی ۔ حکمران اس جمہوری احتجاج کا رد عمل مثبت طریقے سے دینے کے بجائے پوری ریاستی طاقت کو عوام اور سیاسی کارکنان کے خلاف جھونک دیا، جس میں حب ، پنجگور اور کوئٹہ سمیت کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کو سبوتاژ کرنے کے لئے واٹر کینن، آنسو گیس شیلنگ اور فائرنگ کی گئی جبکہ عمران بلوچ کو حب پولیس کےجانب سے گرفتار کیا گیا۔کل 24 مارچ کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے کو تشکیل دینا تھا جس میں احتجاج سے قبل بی وائی سی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر لالا عبدالوہاب بلوچ، اور سمیع دین بلوچ سمیت کئی سیاسی کارکنان کو گرفتار کیا گیا، اس دوران بلوچ خواتین کے سروں سے چادروں کو کھینچ کر کراچی پولیس کی جانب سے غیر اخلاقی رویہ اختیار کیا گیا، جس کے شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ یہ تمام واقعات واضح کرتے ہیں کہ ہارڈ اسٹیٹ کے بیانیے کو پوری شدت کے ساتھ بلوچ اوردیگر محکوم اقوام کے خلاف نافذ العمل کرانے کے لیے ریاستی پالیسی ترتیب دی گئی ہے، جبکہ ممکنا طور پرپاکستان الیکٹرونک کرائم ایکٹ کوبھی منفی مزموم عزائم کی تکمیل کے لیے طاقت کا ناجائز استعمال کر کے اظہار رائے کے راستوں کو بند کیا جائے جس کا نقصان سیاسی حلقوں سمیت صحافت کے شعبے سے منسلک صحافیوں کو بھی ہوگا۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ایک سیاسی اور جمہوری تنظیم ہے ۔جس کا مقصد محکوم اقوام کے سرزمین پر انکا حق حاکمیت، ساحل وسائل پر اختیارات، عوامی اداروں کی بالادستی، سماجی و صنفی برابری کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ عوام طاقت کا سرچشمہ ہے لیکن مطلق العنان حکمرانوں نےجمہوری آوازوں کے خلاف جبر و استحصال پر مبنی پالیسیاں تشکیل دے دیے ہیں۔ اگر بلوچ سیاسی کارکنان کے جمہوری وآئینی اظہار رائے حق کو دبایا جائےگا تو اسکے منفی نتائج دیکھنےکو ملیں گے جوکسی کے بھی حق میں بہتر نا ہوگا۔بلوچستان میں جبری گمشدگی کا معاملہ اپنے عرو ج کو پہنچ چکا ہےاور کل بھی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سیاسی کارکن اور بلوچی زبان کے شاعر نبیل نود بلوچ کو گوادر سے جبری لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ہم ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، لالا عبدالوہاب بلوچ، سمیع دین بلوچ، بیبرگ بلوچ، نبیل نود بلوچ، ناصر قمبرانی ، ڈاکٹر حمل بلوچ اور عمران بلوچ سمیت تمام بلوچ سیاسی کارکنان کے بازیابی و رہائی اور مخدوش صورتحال پیدا کرنے والے ذمہداراں کے خلاف قانون چارہ جوئی کا مطالبہ کرتے ہیں۔