کوئٹہ، سوراب، حب، تربت اور مستونگ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف دھرنے جاری، شاہراہیں بدستور بند

23

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج جاری، مختلف مقامات پر شاہراہیں بند ۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی جھالاوان ریجن اور متاثرہ خاندانوں کا سوراب سی پیک روڈ پر دوسرے روز دھرنا جاری ہے، دو مرتبہ ڈپٹی کمشنر سوراب کے ساتھ مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ 9 فیملیوں پر مشتمل ہیں اور اپنے آخری لاپتہ افراد کی بازیابی تک دھرنا جاری رکھیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستانی فورسز کے ہاتھوں مجیب الرحمٰن ولد محمد انور، 9 جنوری 2025 کو شام 7 بجے زہری سے لاپتہ ہوئے۔عتیق الرحمن ولد عبد القادر، 13 جنوری 2025 کو دوپہر 2 بجے ملگزار، خضدار سے لاپتہ ہوئے۔ محمد حیات ولد محمد عمر، جو 18 فروری 2025 کو دوپہر 2 بجے زہری ڈاک سے لاپتہ ہوئے۔حافظ سراج احمد ولد دین محمد، جو نورگامہ زہری سے لاپتہ ہوئے۔زاہد احمد ولد عبد الحمید، جو 10 اکتوبر 2022 کو سردار دودا خان اسٹیڈیم، زہری سے لاپتہ ہوئے۔

یاسر احمد ولد گل محمد، جو 5 جون 2023 کو بلبل زہری سے لاپتہ ہوئے۔ زکریا ولد سعد اللّٰہ، جو 30 اگست 2021 کو پنجگور سے لاپتہ ہوئے۔نوید احمد ولد عبد رشید، جو 29 اپریل 2023 کو ویگن سے اُتار کر پیر عمر، ضلع خضدار سے لاپتہ ہوئے۔ محمد شفیق ولد محمد حیات، جو 31 اگست 2022 کو گدان ہوٹل زہری سے لاپتہ کر دیے گئے۔ لواحقین نے انکی بازیابی تک بلوچ یکجہتی کمیٹی جھالاوان ریجن کے ساتھ احتجاج کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

وہاں تربت میں جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے ایک دفعہ پھر ایم 8 شاہراہ کو جدگال ڈن پر بلاک کردیا۔

بہمن سے لاپتہ کیے گئے نعمان رفیق، اسماعیل خیر محمد اور نعیم بشیر کے فیملی ممبران نے جدگال ڈن(ڈی بلوچ پوائنٹ) پر ایم 8 شاہراہ کو دھرنا دے کر بلاک کردیا ہے۔

فیملی ممبران نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کو بہمن سے لاپتہ کیا گیا جن کی بازیابی کے لیے ہم نے اس سے پہلے بھی مختلف اوقات میں احتجاج کیا اور انتظامیہ نے ہمیں بازیابی کی یقین دہانی کرائی لیکن اس کے باوجود ان کو بازیاب نہیں کرایا گیا جس پر مجبور ہوکر ہم نے دوبارہ آج ایم 8 شاہراہ کو بلاک کردیا ہے۔

یاد رہے کہ بہمن سے ایک ہی رات میں 6 نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا تھا جن میں سے تین بازیاب کیے گئے تاہم ابھی تک
نعمان رفیق، اسماعیل خیر محمد اور نعیم بشیر لاپتہ ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔

جبکہ جبری لاپتہ بہادر علی، علی رضا اور بشیر احمد کیازئی کے لواحقین کی طرف سے بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کے مختلف علاقے گولیمار چوک،کسٹم سریاب اور بروری بائی پاس پر دھرنا جاری ہے۔

لواحقین نے کہاکہ ہم انتظامیہ کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب تک جبری گمشدہ افراد بازیاب نہیں ہوتے احتجاج کو مزید شدت دینگے اور کوئٹہ کے مین شاہراہوں کو بھی بند کرینگے۔ ہم بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں ہمارا آواز بنے اور پیاروں کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بھائیوں کو ماورائے عدالت یا فیک انکائونٹرز میں نشانہ نہ بنائے۔ ہمیں اس ریاست اور اسکے اداروں پر کوئی بھروسہ نہیں۔

دریں اثنا حب بھوانی کے دھرنا گاہ میں تیسرے روز دھرنا جاری ہے ۔گزشتہ رات انتظامیہ کی آمد کے بعد مذاکرات ناکام ہوگئے۔ اس وقت دھرنا گاہ میں یاسر حمید، جنید حمید، نصیر جان، ندیم بلوچ، احسان بلوچ، امین بگٹی بلوچ کی فیملی بیٹھی ہوئی ہے۔ جن کا مطالبہ ریاست سے ان کے پیاروں کا زندہ سلامت مطالبہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ ریاست اور اس کے نمائندگان جب بھی آئے ہیں ان کا کام صرف اور صرف لفاظی تھا لیکن کوئی مفید عمل نہیں کیا گیا۔

مستونگ کے علاقے کردگاپ میں بھی جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے مرکزی شاہراہ پر دھرنای دے دیا ہے لواحقین میں جاوید سرپرہ , زاکر سرپرہ راشد سرپرہ ودیگر شامل ہیں۔

کردگاپ مظاہرین سے انتظامیہ نے بدکلامی کرکے انہیں راستے نہ کھولنے پر دھمکیاں دی۔

پسنی میں دھرنے کے بعد سے لاپتہ پانچ افراد بازیاب ہو کر گھروں پہنچ گئے ۔

اطلاعات کے مطابق احمد رضا آصف اللہ بخش ، فیصل صوالی ، ساجد صوالی اور محمد رضا ولد رزاق بازیاب ہو گئے ہیں ۔

واضح رہے کہ مذکورہ افراد کی بازیابی کیلئے جمعرات کے روز لواحقین نے دھرنا دے کر پسنی زیرو پوائنٹ کے مقام پر مکران کوسٹل ہائی وے کو ٹریفک کے لیے بلاک کردیا تھا۔ جس کے بعد پاکستانی فورسز نے انکو منظر عام پر لاکر رہا کردیا۔