کوئٹہ پریس کلب پر پولیس حملہ ۔ ٹی بی پی اداریہ

52

کوئٹہ پریس کلب پر پولیس حملہ

ٹی بی پی اداریہ

ایک مارچ کی صبح، ڈپٹی کمشنر سعد بن اسد کی سربراہی میں پولیس نے کوئٹہ پریس کلب پر چھاپہ مار کر صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی کی اور پریس کانفرنس کے لیے وہاں موجود سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کے اساتذہ کو گرفتار کیا۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے، مارچ 2024 میں، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سمینار کے دوران، کوئٹہ پولیس نے پریس کلب کو تالہ لگا کر بند کر دیا تھا، جبکہ ریاستی جبر کے خلاف احتجاجوں کو کوریج دینے پر ڈپٹی کمشنر مسلسل صحافیوں اور پریس کلب انتظامیہ کو ہراساں کر رہا ہے۔

بلوچستان میں صحافت پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے، اور سینکڑوں صحافی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے پاداش میں جبری گمشدگی یا قتل کا شکار ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کے بیانیے کو فروغ دینے سے انکار کرنے اور آزادیِ صحافت سے وابستگی رکھنے والے صحافی سخت ریاستی عتاب کا شکار ہیں۔ قومی سیاست کے راستے بلوچستان میں پہلے ہی مسدود کیے جا چکے ہیں، اور اب پریس کلب کے دروازے بھی اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والوں کے لیے بند کیے جا رہے ہیں۔

پیکا قوانین اور صحافت پر قدغنوں کے ذریعے حقائق کو عوام تک پہنچنے سے روکنے میں ناکامی کے بعد، بلوچستان میں مقتدر حلقوں کی نمائندہ حکومت ایسے ہتھکنڈوں سے صحافیوں اور حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ بلوچستان میں ریاستی جبر کے خلاف متواتر اور روزانہ کی بنیاد پر احتجاج ہو رہے ہیں، لیکن سنگین مسائل کو حل کرنے کے بجائے ریاستی ادارے صحافیوں پر زور آزمائی کر رہے ہیں، جس سے مسائل کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔

دنیا میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم ادارے بلوچستان کو صحافت کے لیے دنیا کے خطرناک ترین خطوں میں شمار کرتے ہیں، اور بلوچستان کے معروضی حقائق کو دنیا پر آشکار کرنے اور سچ کا پرچار کرنے پر ریاستی اداروں کے ہاتھوں اب تک 42 صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ اکیسویں صدی میں صحافیوں کو ہراساں کرکے اور قدغنیں لگا کر حقائق کو چھپانا ممکن نہیں۔ ریاستی ادارے، صحافتی اداروں پر زور آزمائی کے بجائے، بلوچستان کے سنگین مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔