بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رات گئے پاکستانی فورسز کا نامور گلوکار و شاعر پروفیسر نوشین قمبرانی کے گھر پر چھاپہ مارا، گھر میں موجود افراد کو زد و کوب کیا گیا، واقعے کی سیاسی و حلقوں کی جانب سے مذمت
کوئٹہ کے اسپینی روڈ پر کلی ترخام میں واقع پروفیسر نوشین قمبرانی کے گھر پر رات گئے پاکستانی خفیہ اداروں اور سی ٹی ڈی نے چھاپہ مارا تاہم پروفیسر نوشین قمبرانی وہاں موجود نہیں تھیں۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ پاکستانی فورسز نے چادر و چاردیواری کی تقدس کی پائمالی کرتے ہوئے وہاں موجود اہلخانہ کو ہراساں کیا۔
نوشین قمبرانی کی بہن افشین قمبرانی نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر بتایا کہ رات دو بجے کے وقت پاکستانی خفیہ اداروں اور فورسز اہلکاروں نے دیوال پھلانگ کر پروفیسر نوشین کے کمرے کی تلاشی لی اور گھر والوں کو ہراساں کیا۔
یاد رہے کہ نوشین قمبرانی اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں سمیت کئی دیگر بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم رہے ہیں اور وہ خود ایک سیاسی سماجی کارکن ہونے کے ساتھ براہوئی زبان کے گلوکارہ بھی ہیں۔
گذشتہ دنوں نوشین قمبرانی کے دو بھائیوں ناصر قمبرانی اور عبدالرحمان قمبرانی کو مختلف اوقات میں ان کے گھروں سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جبکہ قمبرانی خاندان سے حالیہ مہینوںمیں 8 افراد کو جبری پر لاپتہ کیا گیا۔
جبری گمشدگی کے واقعات کے خلاف خاندان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ناصر قمبرانی و دیگر کو اگر 24 گھنٹوں کے اندر رہا نہیں کیا تو احتجاج کا راستہ اپنایا جائے گا۔
بلوچستان میں گذشتہ چند روز کے دوران جبری گمشدگیوں کے واقعات میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئی ہے جہاں کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماء بیبرگ بلوچ و بھائی ڈاکٹر حمل بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا ہے۔
اسی طرح رات گئے بولان میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر الیاس بلوچ کو جبری گمشدگی کے بعد ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی جن کو جیل منتقل کردیا گیا ہے۔
مزید برآں جبری گمشدگیوں سے متاثرہ سعیدہ بلوچ کو حراست میں لیکر جیل منتقل کردیا گیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق بغیر کسی قانونی کاروائی کے لوگوں جیل سے ریمانڈ پر دیا جارہا ہے۔ واقعات کیخلاف آج بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کوئٹہ میں احتجاجی دھرنے کی کال دی ہے۔