کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ جاری

79

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5751 دن مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر سیاسی و سماجی کارکنان عبدالجبار کاکڑ، نور محمد اچکزئی سمیت مرد و خواتین نے کیمپ میں آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔

کیمپ میں موجود وفد سے خطاب کرتے ہوئے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں سالوں سے ظلم و جبر کا سلسلہ جاری ہے جہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے بلوچستان کے عوام خاص طور پر بلوچ اور پشتون قوم اس ظلم کی شدت کو محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ خود اس جبر کا شکار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں صحراؤں میں پھینکی جاتی ہیں جبری گمشدگیاں جاری ہیں اور وسائل کی لوٹ مار کے باوجود بلوچوں سے وفاداری کا مطالبہ کیا جاتا ہے تعلیمی ادارے بند کیے جا رہے ہیں طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا جا رہا ہے اور جو بلوچ و پشتون کسی بہتر زندگی کی امید رکھتے ہیں انہیں زبردستی لاپتہ کردیا جاتا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچستان کی مائیں بہنیں بیٹیاں اور بچے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں لیکن حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے بلوچ و پشتون اراکین اسمبلی صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے سرگرم ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے ظلم کرنے والے اور ان کے حامی حقیقی انصاف اور عدالت کو بھول چکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا ویسے ہی آج بلوچستان بھوک و ظلم کی آگ میں جل رہا ہے اور حکمران اپنے محل تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔