کوئٹہ: بلوچستان میں ریاستی جبر ایک بے لگام گھوڑے کی طرح تمام انسانی حقوق کو روند رہا ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

15

منگل کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر ایک بے لگام گھوڑے کی طرح تمام انسانی حقوق کو روند رہا ہے۔ جبری گمشدگیاں، جعلی مقابلے، ٹارگٹ کلنگ اور بلوچ نسل کشی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ آج بلوچستان میں ریاستی جبر اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ ان مظالم میں پاکستان کے تمام ادارے برابر کے شریک ہیں اور آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچستان میں ایک ہولوکاسٹ جاری ہے، جس پر عالمی برادری بھی چشم پوشی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ریاستی جبر نے بلوچوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، لیکن جب کبھی ان مظالم پر بات کی جاتی ہے تو پوری ریاستی مشینری ان آوازوں کو دبانے کے لیے متحرک ہو جاتی ہے۔ کسی کو ایجنٹ، کسی کو دہشت گرد، اور کسی کو سہولت کار قرار دے کر ریاست کھلے عام ظلم ڈھا رہی ہے۔ جبکہ ریاست کے ان مظالم کے دفاع میں پاکستان کے نام نہاد میں اسڑیم میڈیا روزانہ مظلوم بلوچوں کی جدوجہد پر نشتر برساتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پچھلے ستر سالوں کی تاریخ میں ریاست نے جو جبر بلوچوں پر ڈھایا ہے، اس سے وہ بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ 1948 سے لے کر آج تک بلوچ قوم پر ہونے والا ریاستی ظلم اور گزشتہ دو دہائیوں سے جاری نسل کشی کے تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بلوچستان ریاست کے لئے ایک کالونی کی حیثیت رکھتی ہے اور ریاست ایک نوآبادیاتی طاقت کے طور پر بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہاکہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہزاروں افراد جبری گمشدگی کا شکار ہوئے، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہزاروں مسخ شدہ لاشیں، جعلی مقابلے اور ٹارگٹ کلنگ کا نہ رکنے والا تسلسل چل رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بلوچستان کے کسی علاقے سے کسی بلوچ کو جبری گمشدگی کا شکار نہ بنایا جاتا ہو۔ فوجی آپریشنوں کے باعث لاکھوں بلوچ مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ روزانہ ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں جہاں پہلے سے ریاستی حراست میں موجود بلوچ نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کر کے لاشیں پھینکی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ آخر کس سے انصاف طلب کریں؟ ہماری زمینیں چھینی جا رہی ہیں، ہمارے ساحل و وسائل کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے، ہزاروں افراد جبری طور پر لاپتہ کر دیے گئے ہیں، مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں، جبری لاپتہ نوجوانوں کو بم دھماکوں میں اڑایا جا رہا ہے، چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے، بلوچ خواتین کو سڑکوں پر بےعزت کیا جا رہا ہے، انہیں جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، سینکڑوں پرامن سیاسی کارکنوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں، انہیں فورتھ شیڈول میں ڈالا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ یہ سب کچھ واضح طور پر پاکستان کو آقا اور بلوچوں کو غلام ثابت کرتا ہے۔ مگر ہم ریاست اور اس کے اداروں پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ بلوچ اپنے وطن پر اپنے جینے کا حق مانگتا ہے، یہ کوئی مطالبہ نہیں بلکہ ہمارا بنیادی حق ہے۔ یہ ہماری ہزاروں سال پرانی زمین ہے، ہماری ملکیت ہے، اور جب تک ہمارے یہ حقوق سلب کیے جاتے رہیں گے، بلوچ اپنی مزاحمتی جدوجہد جاری رکھے گا۔

گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ریاستی جبر کے باوجود پاکستان کو یہ سمجھ جانا چاہیے کہ بلوچ کسی بھی قیمت پر سرنگوں نہیں ہوں گے۔ آپ کے تمام مظالم ہمارے مزاحمتی حق کو نہیں چھین سکتے۔ آج پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے، ہر بوڑھی ماں، ہر شیر خوار بچہ، ہر نوجوان ریاستی مظالم کو نہ صرف پہچانتا ہے بلکہ اس کے خلاف جدوجہد بھی کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے ریاست سازشوں پر اتر آئی ہے۔ سیاسی کارکنوں پر جھوٹے مقدمات قائم کرنا، ان کے خاندانوں کو دھمکانا، جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کو زبردستی خاموش کروانا، اور ہماری تحریک کو بیرونی سازش قرار دینا— یہ سب حربے ناکام ہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ ہم بار بار کہیں گے، مسلسل کہیں گے، کہ بلوچ نسل کشی کے خلاف ہم بولتے رہیں گے، اور تب تک بولتے رہیں گے جب تک بلوچوں کو اپنی سرزمین پر جینے کا حق نہیں مل جاتا۔

گزشتہ روز مشکے آواران میں چار زیرِ حراست نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں بے دردی سے قتل کیا گیا، جن میں تمام کے تمام کم عمر تھے۔ ان نوجوانوں کو پہلے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور بعد ازاں جعلی مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ جبکہ گزشتہ ہفتے بھی پانچ جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماروائے عدالت قتل کیا گیا، اس سے پہلے گومازی میں ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ نے دو نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ صرف اس سال کے ابتدائی دو مہینوں میں درجنوں بلوچوں کو ماروائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ ہفتے بلوچستان بھر میں ان مظالم کے خلاف مکمل احتجاج کیا گیا۔ حب چوکی، کیچ، کوئٹہ، مستونگ، خضدار سمیت مختلف مقامات پر سڑکیں احتجاجاً بند کی گئیں، لیکن ریاست نے اپنی سفاکیت برقرار رکھتے ہوئے مشکے میں مزید چار نوجوانوں کی لاشیں بلوچوں کے حوالے کیں۔ کل رات قلات شہر میں درجنوں افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، جن میں اشفاق احمد ولد خدا بخش بھی شامل ہیں۔

اشفاق احمد، جو حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فارغ التحصیل ہوئے تھے، گزشتہ ہفتے اپنے گھر آئے تھے۔ انہیں پہلے بھی کئی بار دھمکایا گیا تھا، اور کل رات انہیں جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔ ان کی زندگی اور سلامتی کے حوالے سے ہمیں شدید خدشات لاحق ہیں، کیونکہ ان کے بھائی شہزاد احمد کو بھی تین سال قبل لاپتہ کرنے کے بعد جعلی مقابلے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

بلوچستان ریاستی جبر کی آگ میں جل رہا ہے، اور ایسے وقت میں خاموش تماشائی بننا کسی طور قابل قبول نہیں۔ سرفراز بگٹی اور ان کی حکومت بلوچوں سے احتجاج کا حق چھیننا چاہتی ہے۔ احتجاج پر بیٹھے خاندانوں کو زبردستی سڑکیں کھلوانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ حب چوکی میں بلوچ خواتین پر تشدد کر کے انہیں جیلوں میں ڈالنا انتہائی شرمناک عمل ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم خاموش نہیں بیٹھے گی۔ اگر آپ کو سڑکوں کی بندش سے مسئلہ ہے تو جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کریں، ماروائے عدالت قتل کا سلسلہ بند کریں، لوگوں کو اپنے ٹارچر سیلوں سے رہا کریں۔ کوئی بھی خوشی سے سڑکوں پر نہیں آتا، لیکن اگر آپ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے، مسخ شدہ لاشیں پھینکیں گے، ٹارگٹ کلنگ کریں گے، اور پھر امید لگائیں گے کہ لوگ احتجاج نہ کریں، تو یہ آپ کی بھول ہے۔

ہم ایسے کسی بھی “ریاستی رٹ” پر لعنت بھیجتے ہیں جو معصوم بچوں کو جبری لاپتہ کر کے، بلوچ خواتین کی عزتیں پامال کر کے، اور بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینک کر قائم کی جائے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچستان میں جاری ریاستی جبر کی شدید مذمت کرتی ہے۔ ہم بلوچ عوام کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مزاحمت ہی ہماری بقا ہے۔ لاشیں خاموشی سے دفنانے کے بجائے آواز بلند کریں۔ جہاں کہیں جبری گمشدہ افراد کے خاندان احتجاج کریں، ان کا ساتھ دیں اور ان کی مکمل حمایت کریں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی ان لواحقین کے جدوجہد میں ان کے ساتھ مکمل طور پر کھڑی ہے۔

آخر میں کہاکہ ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے مطالبہ کرتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے اور تمام لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے۔