بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور کردگاپ میں چھ دنوں سے احتجاجی دھرنا اس ظلم کی محض ایک جھلک ہے احتجاج میں شریک جبری لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ اور مقامی افراد شال تفتان شاہراہ پر بیٹھے ہیں، انصاف کے منتظر ہیں مگر ریاستی ادارے ان کی آواز دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ کے مطابق کردگاپ سے تعلق رکھنے والے سرپرہ قبیلے کے کاروباری شخصیات سرکاری ملازمین اور طالب علم سمیت 10 افراد کو مختلف اوقات میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
بیان میں کہاکہ ان میں شامل چند اہم کیسز درج ذیل ہیں، عبدالمالک سرپرہ (نوشکی، بلیک بیلٹ کراٹے چیمپئن) 25 اگست 2011 کو کراٹے کلب سے جبری لاپتہ
غلام فاروق سرپرہ (ڈیرہ مراد جمالی، خاندان کے واحد کفیل) 2 جون 2015 کو لاپتہ،
جمیل احمد سرپرہ (بلوچستان حکومت میں گورنر کے پی آر او) – 25 جولائی 2015 کو گھر سے جبری گمشدہ،
میر تاج محمد سرپرہ (کاروباری شخصیت، کردگاپ) – 19 جولائی 2020 کو کراچی ایئرپورٹ جاتے ہوئے لاپتہ،
راشد سرپرہ اور ذاکر سرپرہ – بالترتیب 18 دسمبر 2021 اور 30 اگست 2021 کو جبری گمشدہ،
ظہور سرپرہ اور سجاد سرپرہ (کزنز) – مئی اور جولائی 2021 میں شال سے اغوا
• جاوید شمس (لاء کالج کے طالب علم) – 31 اگست 2021 کو گھر سے جبری لاپتہ،
شاہنواز سرپرہ – 2024 میں قلات کے علاقے منگچر سے جبری طور پر گمشدہ کیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کا زخم اتنا گہرا ہے کہ ایک دن عالمی ضمیر کو ضرور جھنجھوڑنے پر مجبور کرے گا کتنے ہی والدین اور عزیز اپنے پیاروں کے انتظار میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر ایک آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جاری احتجاج ریاستی جبر کا نتیجہ ہے مگر بجائے انصاف فراہم کرنے کے مظاہرین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے انتظامیہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ خود بلوچ ہیں اور ظالم ریاست کے ساتھ کھڑے ہو کر تاریخ میں رسوائی نہ کمائیں۔
بی این ایم کے چیئرمین نے کہا کہ جبری گمشدگیاں ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں اور بلوچ عوام دہائیوں سے اس جبر کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ظلم کے دن گنے جا چکے ہوتے ہیں، مگر مزاحمت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔