ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کارکنان کی گرفتاری اور ریاستی جبر کے خلاف سوراب میں احتجاجی ریلی نکالی گئی

137

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی کال پر، بی وائی سی کے آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کارکنان کی گرفتاری اور ریاستی جبر کے خلاف سوراب میں بلوچ یکجہتی کمیٹی جھالاوان ریجن اور بی این پی نے ایک مشترکہ احتجاجی ریلی نکالی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی سوراب زون کے ممبران نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج سوراب کے عوام کی بڑی تعداد میں شرکت ریاستی اداروں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ ظلم و جبر کے باوجود بلوچ عوام اپنے حقیقی لیڈران کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ ریاست یہ سمجھ رہی تھی کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی قائدین کی گرفتاری کے بعد عوام خاموش ہو جائیں گے، لیکن آج کا اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام خوف کے سائے میں بھی مزاحمت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔

ممبران نے کہا کہ ریاست نے خواتین کو نشانہ بنا کر انہیں گرفتار کیا، جو اس کی شکست کا واضح ثبوت ہے۔ اگر آج ہم اس جبر کے خلاف مزاحمت نہ کریں، تو کل مزید مظلوم بلوچوں کو زندانوں میں ڈال دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ریاست کوئٹہ میں مسلسل جبر و تشدد کر رہی ہے، وہ قابلِ مذمت ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ جب تک ہمارے قائدین کو رہا نہیں کیا جاتا اور ان پر قائم جھوٹے مقدمات ختم نہیں کیے جاتے، ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

سلطان امام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا احتجاجی ریلی انتہائی کامیاب رہی۔ اس تاریخی مقام پر جہاں آج ہم کھڑے ہیں، ہمیشہ ظلم کے خلاف جدوجہد کی گئی ہے۔ میں اپنے ماں، بہنوں، بزرگوں اور نوجوانوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ وہ ان مشکل حالات میں بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کی جانب سے بے بنیاد مقدمات قائم کرنا ناقابلِ قبول ہے اور ہم انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ریاستی جبر کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

ایڈووکیٹ منیر آزاد نے کہا کہ سوراب کے عوام نے آج جس طرح احتجاج میں شرکت کی، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے لوگ ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے متحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ہمیشہ پرامن انداز میں حقوق کی بات کی ہے اور ان کے مطالبات میں کوئی غیر قانونی بات نہیں۔ اگر ریاست کے پاس کوئی دلیل ہے تو وہ عدالت میں پیش کرے، لیکن ماورائے قانون اقدامات کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ خواتین ہمیشہ اپنے گھروں میں رہتی تھیں، مگر آج انہیں بھی سڑکوں پر آنا پڑا، جو اس بات کی علامت ہے کہ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ میں حکومتی نمائندوں سے کہتا ہوں کہ اگر وہ ظلم کے خلاف نہیں بول سکتے تو کم از کم خاموشی توڑیں۔

لطیف بلوچ نے کہا کہ بی وائی سی اور بی این پی ریاستی مظالم کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاج جاری رکھیں گے۔ آج ہماری مائیں اور بہنیں بھی ہمارے ساتھ کھڑی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت میں بلوچ قوم متحد ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، جو انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے لاپتہ ساتھیوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور انہیں انصاف دیا جائے۔ جبری گمشدگیاں اور ریاستی جبر کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔