بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ رات بولان میڈیکل کالج سے معروف معالج اور کالج کے وائس پرنسپل، ڈاکٹر الیاس بلوچ اور بی وائی سی رہنماء بیبگر بلوچ سمیت درجنوں بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی کی خبروں پر شدید تشویش ہے۔ طاقت کے استعمال کا آغاز بلوچستان کے تعلیم یافتہ اور سیاسی شعور رکھنے والے افراد سے کیا گیا ہے۔گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے نام پر اجلاس منعقد کرکے طاقت کے استعمال کو قانونی شکل دی گئی، اور نام نہاد وفاقی و دیگرسیاسی جماعتوں نے اس کی حمایت کی۔ اب اس کے بعد بلوچستان بھر کے عوام کو خوفزدہ کرکے عدم تحفظ کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد اب اساتذہ اور طلبہ کو جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ بلوچستان میں گزشتہ ستر سالوں سے طاقت کا استعمال کرکے وسائل کی لوٹ مار کو فروغ دیا گیا، اور امن و امان کے نام پر ہمیشہ قتل و غارت گری کی گئی، جس کے نتیجے میں یہاں کے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی جانب دھکیلا گیا۔ بلوچستان میں باشعور طبقات، اساتذہ، سیاسی کارکنوں اور طلبہ نے ہمیشہ پُرامن طریقے سے اپنے حقوق کے دفاع کی کوشش کی، لیکن تمام طبقات کو کٹھ پتلی صوبائی حکومت کے ایماء پر دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ ہر فرد کو دہشت گرد قرار دینے کی پالیسی ہی دراصل امن و امان کی خراب صورتحال کا بنیادی سبب بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ریاست قبائلی طرز پر ہر فرد اور ہر طبقے کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے تاکہ عالمی استحصالی منصوبوں کے خلاف کوئی آواز بلند نہ ہو سکے۔ پُرامن سیاسی آوازوں اور باشعور طبقے کے خلاف ایک بار پھر 2010 کے بعد کی طرز کا کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے۔ عدالتیں، جو عوام اور ریاست کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہیں، مکمل طور پر کسی تھانے کی مانند شکل اختیار کر چکی ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام کے لیے فریاد کرنے کا کوئی فورم باقی نہیں رہا۔ہر علاقے میں بلوچ مائیں اور بہنیں سڑکوں پر آنسو بہا رہی ہیں، اور بلوچستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہا، یہاں تک کہ ریاستی ادارے بھی اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے پریشان ہیں۔ بلوچستان کے مسائل کا حل اسی وقت ممکن ہوگا جب عالمی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور سیاسی و تاریخی حقائق کی روشنی میں بلوچ قوم سے براہِ راست مکالمہ کیا جائے۔
ترجمان نے کہاکہ جب تک سیاسی حقائق، عالمی قوانین اور تاریخ کو جھٹلایا جاتا رہے گا اور ریاست محض خوشامد کی بنیاد پر چند غیرسیاسی عناصر کو نوازتی رہے گی، بلوچستان میں جاری انسانی المیے اور مسائل کا حل ممکن نہیں ہوگا۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں، ملکی میڈیا اور سیاسی قوتوں کی بلوچستان کے مسائل پر خاموشی اس بحران کو مزید شدت دے رہی ہے۔