بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم سابق چیئرمین اور بلوچ رہنماء زاہد بلوچ اور تنظیم کے سابق جوئنیر جوائنٹ سیکرٹری اسد بلوچ کی غیر قانونی اور غیر انسانی جبری گمشدگی کو گیارہ سال کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے، انہیں منظر عام پر لانے کے بجائے قابض ریاست نے جبری لاپتہ زاہد بلوچ کے چھوٹے بھائی شاہجہان کو نال میں نشانہ بناکر شہید کر دیا جو قابض ریاست کی تشدانہ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ شاہجہان کو چیئرمین زاہد کی جبری گمشدگی کے گیارہ سال مکمل ہونے کے وقت نشانہ بنانا ریاست کی طرف سے عام سیاسی کارکن اور بلوچ عوام پر واضح اعلان ہے کہ ریاست اپنی غیر قانونی جبری قبضے کو برقرار رکھنے کیلئے بدترین اور غیر انسانی عمل پر یقین رکھتی ہے۔ جبری گمشدہ رہنماؤں کو رہا کرنے کے بجائے ان کے لواحقین کو نشانہ بنانا ریاست کی شکست کی نشانی ہے اور اس فرسٹریشن کا اظہار ہے کہ مزاحمت کے سامنے مسلسل نقصان اٹھانے کے بعد وہ عام اور معصوم افراد کو نشانہ بنا رہی ہے۔ قابض ریاست کا ہمیشہ سے وطیرا رہا ہے کہ انہوں نے بلوچ مزاحمت میں شدت کے آتے ہی عام اور معصوم عوام کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ شاہ جان بلوچ کا قتل اور چیئرمین زاہد اور اسد بلوچ کی ایک دہائی سے زاہد عرصے سے جبری گمشدگی ریاست کی مکروہ چہرنے کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہے۔
ترجمان نے کہاکہ دنیا میں جتنے بھی قبضہ گیر رہے ہیں انہوں نے ہمیشہ تشدد کی پالیسی اپناتے ہوئے محکوم اور غلام قوموں کی زندگیوں پر اپنا راج قائم رکھا ہے۔ پاکستان بھی دیگر قابضین کے نقش قدم پر چلنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے اور اس سلسلے میں بے گناہ اور عام عوام کو نشانہ بناکر عوام کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کی ناکام کوششیں کر رہی ہے جس سے ہمیشہ قبضہ گیر کو شکست کا سامنا رہا ہے۔ بلوچستان میں ریاست کی بربریت آئے دن مزید وسعت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ چیئرمین زاہد بطور ایک سیاسی رہنماء گزشتہ گیارہ سالوں سے ریاست کی غیر قانونی حراست میں ہے، انسانی حقوق کی جانب سے ان کی جبری گمشدگی کے کیس کو دنیا کے سامنے لانے اور تنظیم کی جانب سے تادم مرگ بھوک ہڑتال کے باوجود چیئرمین زاہد بلوچ کو اس وقت تک منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے اور اب انہیں گیارہ سال ہونے کو ہیں۔ قابض ریاست کی کوشش تھی کہ چیئرمین زاہد اور اسد بلوچ کو اسیراں رکھ کر وہ تنظیم کے اندر خوف پیدا کرنے میں کامیاب ہوگی لیکن چیئرمین زاہد کے نظریاتی ساتھیوں نے چیئرمین کے قومی اور فکری نظریہ کی ہمیشہ ترویج کی اور آج تمام بلوچ نوجوان ریاست کے قبضے سے آگاہ ہیں اور دھڑا دھڑ بلوچ مزاحمت کا حصہ بن رہی ہیں۔ چیئرمین زاہد اور اسد بلوچ کو جبری طور پر گمشدہ رکھنا ریاست کی ناکامی کا واضح ثبوت اور بلوچ تحریک کے قیادت کی ثابت قدمی کا اعلی مثال ہے۔ چیئرمین اور اسد بلوچ نے 11 سال اسیری کی زندگی گزار کر بھی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے ہیں یہ تنظیمی ساتھیوں کیلئے جدوجہد اور قربانی کے فلسفے کا اعلی مثال ہے لیکن دشمن کے اس غیر انسانی اقدام پر دنیا کی خاموشی یقینا مایوس کن ہے۔ چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کا کیس اس خطے میں سب سے سنگین ترین کیس میں ایک ہے لیکن اس کے باوجود قابض ریاست دنیا کے تمام قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو روندتے ہوئے انہیں منظر عام پر لانے سے قاصر رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ چیئرمین زاہد اور اسد بلوچ کی جانب سے گزشتہ گیارہ سالوں تک جبری گمشدگی اور اب ان کے چھوٹے بھائی اور گھر کے واحد کفیل کو نشانہ بنانا یقینا دشمن کی بلوچستان میں شکست کا اعلان ہے لیکن دوسری جانب تنظیمی قیادت کیلئے آواز اٹھانا، ریاست کی بلوچستان میں جاری بربریت کے خلاف مزاحمت کرنا بھی بلوچ نوجوانوں پر فرض ہے۔ تنظیم کی جانب سے چیئرمین زاہد اور اسد بلوچ کی باحفاظت بازیابی کیلئے میڈیا میں کمپین چلایا جائے گا، بلوچ عوام اور بلخصوص نوجوانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بلوچ طلباء رہنما اسد بلوچ اور چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف بھرپور اور توانا آواز اٹھائیں۔ جبکہ شاہ جان بلوچ کو نشانہ بناکر قابض ریاست نے بلوچ عوام پر واضح کر دیا ہے کہ بلوچ قوم کے پاس ماسوائے مزاحمت کے کوئی بھی دوسرا راستہ نہیں اس لیے بلوچ قوم قبضہ گیر کے ان بلوچ کش پالیسیوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں۔