پولیس نے حراست میں ذہنی تشدد کر کے دھرنا ختم کرنے کا دباؤ ڈالا – سیماء بلوچ

186

گذشتہ روز حب چوکی میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنے کے دوران پولیس نے تشدد کرکے متعدد خواتین کو گرفتار کیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا جبری لاپتہ بلوچ طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیماء بلوچ نے اپنے ویڈیو بیان میں انکشاف کیا کہ حراست کے دوران انہیں شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

سیماء بلوچ نے کہا کہ اٹھارہ گھنٹے کی قید میں جو کچھ ہم پر بیتی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے پیارے اذیت خانوں میں کن مشکلات سے گزر رہے ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ دیگر مظاہرین کے ساتھ تین روز تک یاسر حمید، جنید حمید اور دیگر جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بھوانی حب میں دھرنا دیے بیٹھے تھے پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں دیگر خواتین کے ساتھ گرفتار کر لیا اور تھانے منتقل کر دیا، جہاں کھینچا تانی کے دوران ان کے ہاتھ اور پاؤں زخمی ہوئے۔

سیماء بلوچ کے مطابق حراست کے دوران پولیس اہلکاروں نے انہیں بار بار دھمکایا اور دباؤ ڈالا کہ وہ اپنا دھرنا ختم کریں بصورت دیگر انہیں طویل مدت تک قید رکھا جائے گا، سیماء بلوچ اور دیگر گرفتار خواتین نے جواب دیا کہ ہم اپنے بھائیوں سے زیادہ قیمتی نہیں اگر وہ جیلوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں تو ہم بھی اس کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے 18 گھنٹوں کے تجربے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سالوں سے قید ہمارے لاپتہ پیارے کن کٹھن حالات میں ہوں گے۔

سیماء بلوچ نے اپنے ویڈیو بیان کے آخر میں واضح کیا کہ ریاستی جبر انہیں مرعوب نہیں کر سکتا، اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ان کی مزاحمت جاری رہے گی۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز پولیس نے حب دھرنے سے سیماء بلوچ، ماہ زیب بلوچ سمیت ایک مرد اور متعدد دیگر خواتین مظاہرین کو گرفتار کرکے تھانے منتقل کردیا تھا جہاں انکے اہلخانہ اور وکلاء کو رسائی نہیں دی گئی۔

حب احتجاجی مظاہرین نے بعد ازاں مذاکرات کرکے گرفتار ساتھیوں کی بازیابی کے بعد پندرہ دنوں میں اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے مطالبہ پر حب چوکی دھرنا ختم کردیا تھا۔