پوائنٹ آف نو ریٹرن
تحریر: سمیرہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستانی دانشوروں ، صحافیوں ، منجھے ہوئے سیاستدانوں کے تجزیے، تبصرے اور تجربوں کی بنیاد پر اب انھوں نے کھل کر اس بات کا اعتراف کر لیا کہ بلوچستان کا معاملہ اب پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکا ہے، بلوچستان ریاست پاکستان سے اتنا دور جاچکا ہے جیسے آسمان، زمین سے دور ہے۔ بی ایل اے کے تازے حملے صرف حملے نہیں بلکہ ایک ایسا پیغام تھا۔ جو اس نے پوری دنیا تک پہنچا دیا۔ کہ بلوچ کی جو آزادی کی تحریک ہے، وہ پایہ تکمیل تک ضرور پہنچے گی۔
بلوچ کی ایک آزاد وطن کی جدوجہد کو لو انسرجنسی کہنے والے، بلوچ سرمچاروں کو مٹھی بھر لوگ کہنے والا پاکستانی آرمی ، بلوچ کی طاقت اور مستقل مزاجی سے غافل تھا۔ ریاست پاکستان پچیس سال سے آزاد بلوچستان کی تحریک کو دنیا سے چھپانے میں مصروف تھا، اپنی کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے وہ دنیا بھر میں یہ پیغام بھیجنے میں مصروف تھا کہ ریاست کا بلوچستان کے ساتھ آل از ویل والا رشتہ ہے لیکن اب پوری دنیا میں بلوچستان کی آزادی کی تحریک زیر بحث ہے۔
ریاست پاکستان اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ میں ایک ایٹمی طاقت ہوں، میرے سرپرست چین اور امریکہ ہے۔ تو میری تسخیر ناممکن ہے۔ حالیہ بلوچ تحریک کو دیکھ کر میں ایک ادنی سا طلبہ بھی یہ سمجھ گئی ہوں، طاقت کا اصل سرچشمہ کسی قوم کے لیے اسکی عوامی حمایت اور اس کا ساتھ ہوتا ہے۔
اگر آج بلوچ تحریک دنیا کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے ۔ تو بلوچ نے کسی ایٹم بم کی طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ بلوچ سرمچاروں کی لازوال قربانیوں ، اور انکی اپنی قیمتی جانوں کی قربانیوں نے کروائی ہیں۔ پاکستان آج بھی یہی راگ الاپ رہا ہے کہ بلوچوں کو انڈیا کی مدد حاصل ہے۔ وہ یہ سوچنے سے کیوں قاصر ہے کہ اگر بلوچ فرزند اپنے جانوں کے نذرانہ نہ دے تو انڈیا چاہے جتنے بھی فنڈنگ کرتا یہ تحریک کھبی بھی کامیاب نہیں ہوتی کیونکہ آسمان سے فرشتے اتر کر بلوچوں کے لیے ریاست پاکستان کے فوج سے نہیں لڑتی۔
ریاست کے اندرون حلقوں کا مجھے نہیں اندازہ لیکن جتنے بھی ریاست کے منجھے ہوئے دانشور اور صحافی چاہے وہ محمد حنیف صاحب کا اپنے ولاگ میں اظہار یا رفیع اللہ کاکڑ صاحب کا ایک پوڈ کاسٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہ اعتراف کرنا کہ بلوچستان میں اب بلوچوں کے ساتھ مذاکرات اور پیکچ وغیرہ کے تناظر سے بات نکل چکی ہے، اب کسی ابہام میں نہیں رہنا چاہیے۔ اور کچھ ایسے بھی تجزیے میری نظر سے گزرے ہیں جس میں کچھ برائے نام صحافی اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ اکیسویں صدی ہے، اب دنیا کے نقشے پر نئے ملک نہیں بنیں گے، اب ملکوں کے پیچ صرف سائیبر یا ٹریڈ وار ہی ہو سکتے ہیں۔ یا پھر وہ فلسطین کی مثال دے کر کہتے کہ فلسطین کے لوگوں کے ساتھ پوری دنیا کھڑی ہے، انکو آزادی نہیں مل رہی ہے تو بلوچ پتہ کیوں یہ خواب دیکھ رہے کہ وہ ایک ایٹمی ملک اور طاقت ور آرمی کو شکست دے سکے گا۔
پہلی بات یہ کہ فلسطین کی جنگ دو سپر پاور ملکوں سے ہیں، اسرائیل اور امریکہ جو معاشی طور بہت ہی مضبوط ہیں لیکن میرا پھر بھی یہی ایمان ہے کہ جس ملک کے فرزند اپنا خون اپنی سرزمین کے لیے دیتے ہیں۔ وہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ انکو بھی اپنا آزاد وطن ایک دن ضرور ملے گا۔ دوسری بات بلوچ کی جنگ حیثیت اس لیے الگ ہے، کیونکہ پاکستان معاشی طور پر خستہ حالی کا شکار ہے۔ پاکستان کا موازنہ سپر پاور ممالک سے کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے اور رہی بات ایمٹی طاقت کی تو میرے خیال سے بلوچ سرمچاروں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ان ماؤں کے شیر بچے ہیں، جن کے دلیری اور بہادری کے سامنے پاکستان کے ایٹم بم ، جے ایف 17 طیارے ، ڈورن اور ہیلی سب بےکار ہیں۔
بلوچ سرمچار یہ جنگ جنون ، جذبے اور بہادری کے ساتھ لڑ رہے ہیں، وہ دن دور نہیں کہ وہ اسکو جتنے میں کامیاب بھی ہو جائے گا۔ دنیا کی تاریخ میں بلوچ کی بہادری کے یہ قصے سنہرے حروف کے ساتھ قلم بند ہوں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔