پاکستان کی پالیسیوں نے بلوچستان کو ایک اجتماعی قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے– ڈاکٹر نسیم بلوچ

229

بلوچ نیشنل موومنٹ کے جاری بیان کے مطابق (بی این ایم) نے جنیوا میں چھٹی بلوچستان بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور دانشوروں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پاکستان و چین کے استحصالی کردار پر تفصیل سے بحث کی گئی۔

اپنے کلیدی خطاب میں، ڈاکٹر نسیم بلوچ، چیئرمین بی این ایم، نے بلوچستان میں جاری شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالی، جن میں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار شامل ہیں۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے 27 مارچ کی تاریخی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 77 سال قبل پاکستان نے بلوچستان کو بزورِ طاقت ضم کر لیا تھا۔ یہ الحاق بلوچ عوام پر مسلط کیا گیا اور اس کے بعد سے بلوچ قوم مسلسل فوجی کارروائیوں، معاشی استحصال اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہے۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہماری سرزمین خون سے سیراب ہو چکی ہے۔ ریاستی پالیسیوں نے بلوچستان کو ایک اجتماعی قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں ہزاروں بلوچ مرد، خواتین اور بچے اغوا، تشدد اور قتل کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہزاروں بلوچ لاپتہ ہیں، اور ان کے خاندان مستقل غم اور غیر یقینی صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

کانفرنس میں ریاستی جبر کے بڑھتے ہوئے ہتھکنڈوں، خصوصاً بلوچ خواتین کو نشانہ بنانے کے مسئلے پر بھی گفتگو کی گئی۔ بلوچ خواتین، جو ہمیشہ مزاحمتی تحریک میں پیش پیش رہی ہیں، آج ریاستی تشدد کی شدید ترین شکلوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ یہ محض انفرادی کیسز نہیں بلکہ بلوچ تحریک کو کمزور کرنے کی ایک منظم کوشش کا حصہ ہیں۔

انھوں نے بلوچستان میں جاری جبر کو محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا اور پاکستان کی جانب سے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا، جن میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق کی پامالی شامل ہے۔

انھوں نے سوال اٹھایا مغربی جمہوریتیں انسانی حقوق کی حمایت کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہیں جب وہ ایک ایسی ریاست کی پشت پناہی کر رہی ہیں جو بلوچستان میں نسل کشی کر رہی ہے؟ ان مظالم پر خاموشی غیرجانبداری نہیں بلکہ مجرمانہ معاونت ہے۔

بی این ایم کے چیئرمین نے عالمی برادری سے فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے کیے گئے جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد تحقیقاتی مشن بھیجے۔ انھوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں، بین الاقوامی میڈیا اور جمہوری حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچستان میں پاکستان کے مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور بلوچ عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کریں۔

کانفرنس کے اختتام پر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے واضح کیا کہ جبر اور تشدد بلوچ عوام کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔ جبری گمشدگیاں، قتلِ عام اور تمام تر مصائب کے باوجود، بلوچ آزادی کی جدوجہد بے خوف اور مستقل مزاجی سے جاری رہے گی۔ ہم خاموش نہیں ہوں گے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

کانفرنس کے آخر میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ “یہ اجتماع محض الفاظ کی حد تک محدود نہ رہے، بلکہ عملی اقدامات کے آغاز کا ذریعہ بنے۔ ہم اسے اپنے شہداء، لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ، اور ان بہادر بلوچ خواتین کے لیے ایک ذمہ داری سمجھتے ہیں جو جبر کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہیں۔

کانفرنس میں ڈاکٹر نسیم کے علاوہ دیگر نمایاں شخصیات نے بھی خطاب کیا ویلیم مارکس (مصنف و صحافی)، ایلونورا منگلی (وی پی، اطالوی فیڈریشن برائے انسانی حقوق – FIDU)، جان میکڈونلڈ (رکن، برطانوی ایوانِ عوام)، ڈاکٹر نصیر دشت (مصنف و مورخ)، سعید عالم (پختون حقوق کے کارکن و PTM رہنما)، ڈاکٹر لکھو لوہانہ (سیکریٹری جنرل، ورلڈ سندھی کانگریس)، ڈاکٹر عائشہ صدیقہ (مصنفہ)، میر محمد علی تلپور (بزرگ بلوچ جہدکار و کالم نویس)، ریڈ بروڈی (کمشنر، انٹرنیشنل کمیشن آف جورسٹس)، اور ایمان مزاری (وکیل و انسانی حقوق کی وکیل) شامل ہیں۔

منظور پشین، پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) کے رہنما، کو بھی کانفرنس میں خطاب کرنا تھا، تاہم تکنیکی مسائل کے باعث ان کی شرکت نہیں ہو سکی۔ ان کی غیرموجودگی میں فضل آفریدی نے پی ٹی ایم کی نمائندگی کی۔

بیان کے مطابق کانفرنس میں مختلف محکوم اقوام کے نمائندگان نے شرکت کی اور اسے نو مختلف پلیٹ فارمز پر براہِ راست نشر کیا گیا، جسے ہزاروں ناظرین نے دیکھا۔ بی این ایم کی میڈیا ٹیم نے کانفرنس کے دوران فوری اپ ڈیٹس اور ویڈیو ہائی لائٹس بھی فراہم کیں۔