ٹکری بہادر کھیازئی،بھائی علی رضا کھیازئی اور بشیر احمد محمد حسنی کو کوئٹہ سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا، باحفاظت بازیابی چاہتے ہیں۔ لواحقین

63

جبری لاپتہ ٹکری بہادر کھیازئی، اس کا بھائی علی رضا کھیازئی اور بشیر احمد محمد حسنی کے لواحقین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے اس پریس کلب ہال میں جتنے پریس کانفرنسز آج تک ہوئے ہیں ان میں جبری گمشدہ افراد کے حوالے سے کئی گی پریس کانفرنسز شاید سب سے زیادہ ہوں، آئے روز بلوچستان کے کسی دوردراز کونے سے کوئی خاندان یہاں آکر اپنی فریاد آپ تک پہنچاتا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں کا صحافت بھی جبری گمشدگی کا شکار ہے اپنے نیوز بیورو ختم ہونے پہ صحافی واک آؤٹ کرتے ہیں احتجاج کرتے ہیں مگر جب یہاں ہم اپنی درد کے قصے بیان کرنے آتے ہیں تو سوائے چند صحافیوں کے اکثریت یہاں بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتا، سوشل میڈیا کی مہربانی کہ جس کی وجہ سے جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کا ایک مختصر سا حصہ دنیا تک پہنچتی ہے نہیں تو شاید بلوچستان کے صحافی مثبت امیج دیکھانے کی کوشش میں بلوچستان کو ایسا خطہ بتاتے کہ جہاں دود اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ہمارا گلہ آپ سے بنتا ہے لازمی طور پر بنتا ہے، یہاں پہنچنے سے قبل یہ نیوز صحافیوں نے بریک کرنی تھی کہ کوئٹہ سے ایک ہی رات دو بھائی جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں لیکن ایسا نہ ہوسکا، ہم آپ سے اور کوئی مطالبہ نہیں رکھ رہے بس آپ حضرات سے دست بستہ اپیل کرتے ہیں کہ جس پیشے کی بنیاد پہ آپ کا گھر چلتا ہے کم از کم اسکی زمہ داریوں کا ادراک کریں، جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کی آواز بنیں، شاید آپ کی وجہ سے کسی خاندان کی خوشیاں لوٹ آئیں، میڈیا کسی بھی ریاست کا بنیادی ستون میں ایک ہے آپ اگر اس کو اپنی فرض سمجھ کر نبھائیں گے تو یقین جانیں بہت کچھ بدل سکتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے اس تمہید سے دل آزار مت ہوجائیں کیونکہ آپ ہی کی برادری سے ایک شخص آج بلوچستان اسمبلی کا سپوکس پرسن ہے اور وہ ہمیں کھلے عام دھمکا رہا ہے کہ بلوچستان کی شاہرائیں کھول دیں ورنہ بزور طاقت حکومت انہیں کھول دے گا، ہم آوارہ گرد نہیں ہیں سڑکوں پہ بیٹھنے کا شوق ہمیں نہیں ہے بزرگوں، بچوں کیساتھ سخت موسم میں آسمان تلے بیٹھنا ہم نہیں چاہتے اور نہ ہی ہم کسی اور کو ازیت میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں سڑکوں کی بندش سے عام عوام تکلیف کا شکار ہوتی ہے ہم اس بات کو سمجھتے ہیں ہمیں اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہے ، روڈ بندش سے جو گالیاں ہمیں پڑتی ہیں ہم انہیں بھی جانتے ہیں مگر ہمارا سوال ان تمام لوگوں سے ہے جنہیں ہماری سڑکوں پہ آنے سے اعتراض ہے کیا آج سے پہلے تک ہم نے روڈ بند کیا۔؟ کیا یہ روڈ بندش ہم روزگار، پانی، گیس، بجلی، یا زاتی آسائش کیلیے کررہے ہیں۔؟ کیا آج سے پہلے ہمیں سڑکوں کو بند کرتے کسی نے دیکھا۔؟ نہیں بالکل نہیں۔؟ آپ کے پانچ سو روپے راستے میں گر جائیں آپ اس سڑک کا خاک چھانتے ہیں، سوچیں ہمارے گھر سے ہمارے سامنے ہمارے لوگوں کو جبری طور پر ریاستی ادارے اٹھا کرلے گئے۔؟ ہمیں ان کیلیے احتجاج کا حق نہیں۔؟ آپ ہم سے زیادہ اس ریاست سے کیوں نہیں کہتے کہ جبری گمشدگیاں ختم کرے، جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کرے، ہم سڑکوں پہ نہیں آئیں گے۔ آپ کو ہم پہ غصہ آتا ہے اس ریاستئ جبر پہ آپ کو غصہ کیوں نہیں آتا۔؟ کسی کی مسخ شدہ لاش ملنے پہ آپ کا خون کیوں نہیں کھولتا۔؟ ہمیں گالی دینے کے بجائے اس نظام کو کیوں گالی نہیں دیتے جس میں آپ جانوروں کی زندگی گزار رہے ہیں۔؟ سڑک بندش ہمارا شوق نہیں ہمارا مقصد نہیں، ہمارے تکلیف کو سمجھیں، جس طرح آپ کو اپنا مریض پیارا ہے، آپ کو بچوں کے سکول پہنچنے کا غم کھاتا ہے جس طرح اپنے مال بردار گاڑیوں کو دوسرے شہروں میں پہنچانے کا آپکو تکلیف ہے، ہمارا دکھ، تکلیف، غم، غصہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر انسان ہیں انسانی صفات آپ کے اندر زندہ ہیں تو ریاستی جبر کیخلاف بولیں، ریاستی مظالم کو برا بھلا کہیں، ہمارے ازیت میں شریک ہوجائیں، ہم سڑک پہ نہ آئیں تو کہاں جائیں، ۔؟ کہاں جائیں۔؟ کوئی بتائے۔؟ انتظار کریں کہ وہ ہمارے پیاروں کو فیک انکاؤنٹر میں مار کے پھینک دے۔؟ اسلئے روڈ بند نہیں کریں کیونکہ عام عوام پریشان ہورہی ہے۔؟ کیا یہ عوام اندھی ہے گونگی ہے اسے مسخ شدہ لاشیں، فیک انکاؤنٹر، جبری گمشدگیاں، روتی بلکتی مائیں، بچے، بوڑھے کچھ نہیں دکھتا، ۔؟ کیا ٹرانسپورٹر مالکان کا منافع ہمارے لوگوں کی زندگیوں سے زیادہ اہم ہے۔؟ وہ کہتے ہیں سڑکیں کھول دیں ورنہ طاقت سے سڑکیں کھول دیں گے، ٹھیک ہے آپ نے طاقت ہی کی بنیاد پہ ہمارے لوگوں کو جبری گمشدہ کیا، اسی طرح آپ ہمیں سڑکوں پہ گھسیٹنے، مارنے پیٹنے کا شوق بھی پورا کریں، لیکن یہ زمین ، یہ سڑکیں، یہ وادیاں ہماری ہیں آپ اپنی طاقت آزمائی کریں، ہم بھی اپنا بازو اور سر پیش کریں گے، ہمارے پیارے آپ جبری طور پر لے گئے ہمیں بھی مار دیجئے، لیکن جب تک زندہ ہیں آپ سے انہیں گلی، کوچوں، سڑکوں پہ اپنے لوگوں کی بازیابی کیلیے جوابدہ کریں گے، آخری سانس تک کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ ٹھکری بہادر کھیازئی پہلے بھی جبری گمشدگی کا شکار بنائے گئے، مہنیوں کی ازیت کے بعد انہیں بہاولپور میں منظر عام پہ لایا گیا، عدالت میں پیش کیا گیا اور اسی عدالت نے انہیں باعزت بری کیا، ابھی انہیں دوسری مرتبہ دوبارہ لاپتہ کیا گیا اس بار انکو بھائی سمیت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، گھر میں گھس کر ، تشدد کرکے انہیں لے گئے، آپ ہمارے گھر کے کفیل کو لاپتہ کریں، بدلے میں ہم کو دھمکائیں تشدد کا نشانہ بنائیں کہ جی سڑکیں کھول دیں عوام پریشان ہورہا ہے اسی عوام کے سامنے ہمارے پیاروں کو لاپتہ کیا گیا وہ کیوں پریشان نہ ہوئے، چند گھنٹون کی سڑک بندش ان کیلیے پریشانی ہے۔؟ اسی طرح بشیر احمد محمد حسنی کو بروری روڈ پہ واقع اپنے گھر سے لاپتہ کیا گیا، ہم ان کے لواحقین ٹکری بہادر کھیازئی، انکے بھائی علی رضا کھیازئی، اور بشیر احمد محمد حسنی کی بازیاب کا مطالبہ کرتے ہیں

انکا کہنا تھاکہ احتجاج ہمارا حق ہے آپ ہم سے ہمارے سر کا سایہ چھینیں، بدلے میں ہم سی ہی توقع رکھیں کہ ہم سڑکوں پہ مت آئیں، ظلم آپ کررہے ہیں آپ کے مظالم کا شکار بھی ہم ہیں سڑکوں پہ خوار بھی ہم ہی ہیں، ایر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر آپکو ہمارے احتجاج پہ تکلیف ہورہی ہے۔؟ ہمارے لوگوں کو یعنی ٹکری بہادر کھیازئی، علی رضا کھیازئی، اور بشیر احمد کو رہا کریں، ہمارے حوالے کریں، ہم اس وقت سڑک کھول دیں گے، ہمیں کوئی شوق نہیں سڑک بند کرنے کا، لیکن اگر آپ نہیں کرتے تو ہم اپنی سانسیں انہی سڑکوں پہ دیں گے، آپ آئیں طاقت آزمائی کریں، ہمیں بھی گرفتار کرلیں، تشدد کا نشانہ بنائیں، کیونکہ ہمارے پاس کوئی بھی دوسرا راستہ نہیں، اپنوں کے بغیر زندگی ویسے بھی اجیرن ہوگئ ہے، اور اپنوں کے بغیر کوئی زندگی نہیں، کوئی خوشی نہیں، سوائے غم، تکلیف، ازیت، یہی کچھ بچتا ہے جب کوئی اپنا جبری گمشدگی کا شکار ہوتا ہے اور ہم اسے سہہ رہے ہیں، ہم اپنے لوگوں کی باحفاظت بازیابی چاہتے ہیں، اور ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ٹکری بہادر کھیازئی، علی رضا کھیازئی، اور بشیر احمد محمد حسنی کو بازیاب کیا جائے۔