موت تک ساری شکست نفسیاتی ہے – بادوفر بلوچ

216

موت تک ساری شکست نفسیاتی ہے

تحریر: بادوفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎‏‎ “موت تک، تمام شکست نفسیاتی ہے” بتاتے ہیں کہ جب تک انسان زندہ ہے، ناکامی کبھی بھی مطلق نہیں ہوتی- یہ صرف دماغ میں موجود ہوتی ہے۔ یہ نقطہ نظر چیلنجوں پر قابو پانے میں لچک، مضبوط و مربوط ذہنیت اور استقامت کی طاقت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی شکست تب ہوتی ہے جب کوئی ذہنی طور پر ہتھیار ڈال دیتا ہے، نہ کہ جب رکاوٹیں ناقابل تسخیر دکھائی دیں۔ پوری تاریخ میں، افراد اور تہذیبوں کو بے پناہ جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، پھر بھی جو لوگ ڈٹے رہے انہوں نے اپنی ناکامیوں کو حتمی سمجھنے سے انکار کیا۔ مثال کے طور پر، تھامس ایڈیسن نے کہا، “میں ناکام نہیں ہوا، میں نے ابھی 10،000 طریقے تلاش کیے ہیں جو کام نہیں کریں گے۔” بار بار کی ناکامیوں کے باوجود کامیابی کے لیے اس کا انتھک جستجو اس خیال کی عکاسی کرتا ہے کہ شکست تب ہی حقیقی ہوتی ہے جب کوئی اسے قبول کر لے۔

‎اسی طرح، انسانوں کی ارتقائی عمل میں خاندانوں سے قبائل، قبائل سے نسلی گروہ اور اقوام کے درمیان سنگین اقسام کی لڑائیوں کا تذکرہ بھی بیشتر تاریخ دان کر چکے ہیں۔ بیشتر معاملات میں ان جنگوں کی بنیادی وجہ ملکیت، معیشت اور بقاء تھی۔ Survival of the fittest کا بنیادی تصور لیکر ہم اِس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ مختلف قبائل نے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے اور خود کو بھوک اور افلاس کی جلتی آگ سے بچانے کیلئے دوسرے قبائل سے خون آشام جنگیں لڑی۔ جو زندہ بچے، انہوں نے ایک بار پھر امن سے جینے اور اپنی زندگی کو بہتر ڈگر پر چلانے کیلئے تگ و دو کی۔ اُن کی کامیابی کا دار و مدار بھی اسی ذہنی کیفیت کیاستطاعت، مربوطی اور استحکام پہ مبنی تھی۔ وہ اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ اغیار کے سامنے نفسیاتی طور پر اپنے حوصلوں کو پست کرنا اور اپنے قدم پیچھے ہٹانے کا مطلب شکست کو تسلیم کرنا ہے، ایک ایسی شکست کو تسلیم کرنا ہے جو موت سے بھی بدتر ہے۔ اسی لیے اُنہوں نے ذہنی طور پر کبھی بھی شکست کو من و عن تسلیم نہیں کیا، بلکہ اپنے بقاء کی جنگ کو جاری رکھا۔

‎‏‎یہ تصور کئی متعلقہ نظریات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، جیسے رچرڈ نکسن فرماتے ہیں کہ “آدمی اس وقت ختم نہیں ہوتا جب وہ ہار جاتا ہے، وہ تب ختم ہوتا ہے جب وہ چھوڑ دیتا ہے۔” اسی پہلو کو بیان کرنے کیلئے ونسٹن چرچل کہتے ہیں کہ “کامیابی جوش میں کمی کے بغیر ناکامی سے ناکامی تک ٹھوکر کھاتی ہے۔” اسی طرح جارج برنارڈ شاہ کہتے ہیں کہ “زندگی میں واحد حقیقی ناکامی کوشش کرنے میں ناکامی ہے۔” وسیع تر معنوں میں، یہ اصول کھیلوں، کاروبار اور ذاتی جدوجہد پر لاگو ہوتا ہے۔ وہ کھلاڑی جو کھیل ہار جاتے ہیں لیکن تربیت جاری رکھتے ہیں وہ واقعی ہارے نہیں ہیں۔ ایسے کاروباری افراد جو مالی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں لیکن اپنے وژن پر قائم رہتے ہیں وہ حقیقی معنوں میں شکست خوردہ نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ ذاتی لڑائیوں میں — خواہ وہ جذباتی ہوں، جسمانی ہوں یا سماجی — جیت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو ذہنی طور پر ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہیں۔

‎انسان اپنے ذہن کے گوشوں سے اپنے آج اور کل کا فیصلہ کرتا ہے؛ جب وہ اپنی کہانی خود لکھنے کی اطاعت سے بہرہ مند ہو جائے، تو دنیا کی کوئی بھی قوت اُسے مات نہیں دے سکتا۔ کارل جنگ انسانی شخصیت کو واضح کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ ہر شخص کے پاس ایک کہانی ہوتی ہے۔ جب توازن میں خلل پڑتی ہے یا کہانی کی ترتیب بگڑ جاتی ہے، تو اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُس شخص کی کہانی کو مسترد یا رد کیا جاتا ہے۔ تاوقتیکہ وہ اپنی ذاتی کہانی (شعور، فکر، آگاہی و عمل) کو دوبارہ دریافت نہیں کرتا، تب تک وہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں رہتا۔ اسی لیے کارل جنگ کہتے ہیں کہ:

‎‏ Trust that which gives you meaning and accept it as your guide۔

‎‏‎اسی طرح جب تک زندگی چلتی رہتی ہے، ہر نقصان صرف ایک سبق ہے، ہر ناکامی عارضی ہے، اور تمام شکست نفسیاتی رہتی ہے۔ اکثر و بیشتر ہم ماضی میں ہونے والے ناکام تجربات کی وجہ سے نفسیاتی طور پر شکست کو تسلیم کرتے ہیں اور عملی اقدامات سے قاصر رہتے ہیں۔ بقولِ سگمنڈ فرائڈ، ایک پیچیدہ دماغ میں نفسیاتی مراحل کا دار و مدار سائیکولوجیکل انرجی (Libido) پہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے نظریے کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ذہنی کیفیت کے پیچھے ماضی کے تجربات، خصوصاً بچپن کے واقعات کارفرما ہوتی ہیں، جو انسان کی پوری زندگی کے احساسات و رویوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر یہ تجربات اور یادیں ہمارے ذہن پہ حاوی نہ ہوں، تو ہم اپنے نفسیاتی کیفیت کو بہتر کر سکتے ہیں اور کامیابی سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جب تک ہم، بقول رابرٹ گرین، جب تک ہم ماضی کو یکسر اپنے ذہن سے بھلانے اور حال پہ اپنی نگاہیں مرکوز کرنے کی کوشش نہیں کرتے، تب تک ہم کسی بھی امتحان میں سرخروئی کی امید نہیں رکھ سکتے۔

‎پس، یہ انسانی ذہن ہی ہے جو ہر حکمت، ہنر، جذبے، حوصلے اور ناکامی کو نمو دلواتی ہے۔ ذہن کے گوشوں میں جب ایک انسان فتح کیلئے نفسیاتی طور پر آمادہ ہوتا ہے اور عملی اقدامات کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے، تو وہ کسی بھی مشکل صورتحال میں شکست کو تسلیم کرنے کیلئے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹاتا۔ کیونکہ انسانی ذہن کی پختگی اور استطاعت ہی وہ ناقابلِ تسخیر ہتھیار ہے جس کی بدولت وہ کسی بھی شے کو مات دے سکتی ہے۔ اسی لیے گوتم بدھ کہتے ہیں کہ:

“We are what we think, all that we are arises with our thoughts, with our thoughts we make the world.”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔