مفتی شاہ میر بزنجو کا قتل اور بلوچستان کے سیاسی تناظر میں اس کے اثرات
تحریر: جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مفتی شاہ میر بزنجو، جے یو آئی کے ضلع کیچ کے جنرل سیکرٹری اور ایک اہم عالم دین کی ہلاکت 8 مارچ 2025 کی رات ہوئی۔ وہ نماز عشا کے بعد مسجد میں تراویح پڑھ رہے تھے کہ مسلح افراد نے ان پر حملہ کر کے انہیں قتل کر دیا۔ اس قتل کے پیچھے جو پیچیدہ سیاسی اور سیکیورٹی محرکات ہیں ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مفتی شاہ میر کا ماضی اور ان کے حالیہ رویے بلوچستان کی سیاسی صورتحال اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے کردار کے حوالے سے یہ تجزیہ ایک دستاویز بن سکتا ہے۔
مفتی شاہ میر بزنجو کا پس منظر
مفتی شاہ میر کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ سے تھا اور وہ جے یو آئی (ف) کے سرگرم رکن تھے۔ وہ ایک عالم دین کے طور پر مشہور تھے اور اپنے دینی اور سیاسی خیالات کی وجہ سے مختلف حلقوں میں معروف تھے۔ تاہم ان کا تعلق پاکستان کے خفیہ اداروں سے بھی اعلانیہ تھا اور ان پر الزام تھا کہ وہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے قتل اور جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں۔ 2013 میں بلوچ آزادی پسند تنظیم “بی ایل ایف” نے ان پر حملہ کیا تھا لیکن وہ اس حملے میں بچ گئے تھے۔ اس کے بعد 2024 میں ایک اور حملہ ان پر اسی مسجد میں ہوا تھا جہاں وہ بعد میں قتل ہوئے جس میں پانچ بچے زخمی ہوئے تھے۔
سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تعلقات
مفتی شاہ میر کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ وہ ماضی میں سرکاری سیکیورٹی اداروں کا اہم اثاثہ رہے تھے۔ وہ بلوچ مزاحمتی تحریک کے خلاف سیکیورٹی اداروں کے مفادات کو حمایت دینے والے شخص تھے لیکن بعد میں انہوں نے ان اداروں کے کردار پر تنقید شروع کر دی تھی جس کا واضح اظہار قتل سے چند گھنٹے قبل پریس کلب کے سامنے مظاہرہ میں ان کی تقریر سے کیا جاسکتا ہے۔ اپنے نجلی محافل میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے پورے کیریئر میں اداروں کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں اور اب وہ ان سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے اس رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کی پوزیشن کے بارے میں پچھتا رہے تھے اور ان اداروں کے ساتھ مزید تعلقات رکھنے سے گریز کر رہے تھے۔
بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے خلاف سرگرمیاں
مفتی شاہ میر بزنجو کو بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے خلاف سیکیورٹی اداروں کا اثاثہ سمجھا جاتا تھا اور وہ اس کام میں ان اداروں کی مدد کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ان کی حمایت نے بلوچ مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے میں مدد دی ہے۔ تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ مفتی شاہ میر کی سیاسی پوزیشن اور ان کے روئیے میں تبدیلی آ چکی تھی جو ان کے اپنے عزائم اور خیالات کے مطابق تھا۔ ان کے زاتی دوستوں کے بقول انہوں نے اب سرکاری اداروں کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی سیاسی حمایت، بلوچ مزاحمت کی بے جا مخالفت سے ہٹ کر حاصل کرنے کی کوشش کی۔
قتل کی ممکنہ وجوہات
مفتی شاہ میر کے قتل کو ایک سیاست سے جڑی چال کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی حکومتی اداروں کو بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے برھتے طاقت کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے جسے مقامی پراکسیز کے بغیر انجام دینا بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہے اور مفتی شاہ میر جیسے اثاثوں کا سرکاری اداروں کو مذید استعمال ہونے سے انکار انکار ان اداروں کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکا تھا۔ ان کے قتل کے ذریعے حکومتی ادارے شاید بلوچ تحریک کے خلاف اپنے کوششوں کو مزید محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قتل کے مقام یعنی مسجد میں ان کا قتل کرنا ایک گہرا پیغام دینے کی کوشش ہو سکتی ہے تاکہ مذہبی حلقوں کو بھی اس عمل میں ملوث کیا جائے اور ان میں اشتعال انگیزی پیدا کرکے مذہب کے نام پر ان کے جزبات کو بھڑکایا جائے۔
داعش اور دیگر عالمی خطرات
مفتی شاہ میر کے قتل میں داعش جیسے عالمی دہشت گرد گروپوں کی ممکنہ مداخلت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ حکومتی اداروں کی یہ کوشش ہو سکتی ہے کہ وہ بلوچستان میں داعش جیسے گروپوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کریں۔ مفتی شاہ میر جیسے اہم مذہبی رہنما کے قتل سے حکومت یہ پیغام دینا چاہتی ہو کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کو اپنی حکمت عملی کے تحت استعمال کرنے میں آمادہ ہے ممکنہ طور پر امریکہ اور یورپ کو دہشت گردی کے نام پر فنڈ لینے یا بلوچستان میں وسیع پیمانے کے فوجی آپریشن پر قائل کرنے کی چال چل رہی ہو، ملا شفیق مینگل جیسے خون خوار درندوں کی توتک میں دوبارہ آباد کاری اور مستونگ میں داعش کے ممکنہ کیمپ کی موجودگی کا دعویٰ اس بات کو اور زیادہ تقویت دیتی ہے۔
مقامی علما کی ذمہ داری
مفتی شاہ میر کے قتل کے بعد بلوچستان کے مقامی علما پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خاص طور پر وہ علما جو اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ان کا استعمال سرکاری ادارے اپنے مفادات کے لیے کر سکتے ہیں۔ مفتی شاہ میر کی طرح علما کو بھی سرکاری اداروں کے ہاتھوں استعمال کیے جانے کا خدشہ ہے۔ مولانا الیاس اور مفتی غلام اللہ جیسے جید علما کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کا صحیح ادراک کریں اور سرکاری اداروں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچیں اور مشتعل علما کو سمجھا کر سرکاری چالوں سے ہوشیار کرائیں تاکہ ان کے جزبات بھڑکا کر خفیہ ادارے انہیں بلوچ تحریک کے خلاف استعمال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
حرف آخر
مفتی شاہ میر بزنجو کا قتل نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کا ایک المیہ ہے بلکہ یہ بلوچستان کی سیاسی صورتحال اور پاکستانی حکومتی اداروں کی حکمت عملی کا ایک گہرا تجزیہ پیش کرتا ہے۔ یہ قتل ایک طویل مدت سے جاری اس پیچیدہ جنگ کی عکاسی کرتا ہے جس میں بلوچ تحریک پاکستانی حکومتی ادارے اور مختلف عالمی طاقتیں آپس میں متصادم ہیں۔ مفتی شاہ میر کی ہلاکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بلوچستان میں آنے والے دنوں میں مزید سیاسی اور سیکیورٹی کشیدگی بڑھ سکتی ہے اور علما کا کردار اس میں اہمیت اختیار کر سکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔