مشکے میں جبری گمشدگی کے شکار چار بلوچوں کا ماورائے عدالت قتل ریاستی دہشت گردی اور بربریت کی بھیانک شکل ہے۔ بی وائی سی

35

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے مشکے میں پاکستانی فورسز نے جبری گمشدگی کے شکار چار بلوچ نوجوانوں کامران علیم، معراج، مومن اسلم اور حفیظ کو ماورائے عدالت قتل کر دیا ہے۔

بی وائی سی کے مطابق مذکورہ افراد 28 فروری کی رات کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں دیگر پانچ افراد سمیت جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے، دیگر پانچ افراد تاحال پاکستانی فوج کی غیر قانونی حراست میں ہیں جن کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

‏بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان اس وقت جبری گمشدگیوں ماورائے عدالت قتل اور بلوچ نسل کشی کے ایک خوفناک مرحلے سے گزر رہا ہے پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے منظم پالیسیوں کے تحت بلوچ قوم کی شناخت کو بنیاد بنا کر منظم نسل کشی میں مصروف ہیں جبری گمشدگی، زیرِ حراست قتل اور جعلی مقابلوں میں بلوچ نوجوانوں کا قتل ایک معمول بن چکا ہے جس نے بلوچستان کو ایک سنگین انسانی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا ہے کہ ریاستی دہشت گردی کا سب سے لرزہ خیز پہلو ماورائے عدالت قتل ہیں جہاں پہلے لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے انہیں بدترین جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر جعلی مقابلوں میں قتل کر کے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔

تنظیم کے مطابق رواں سال کے صرف دو مہینوں میں درجنوں بلوچ نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے جو اس بربریت کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

‏انہوں نے کہا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ لاپتہ کیے گئے افراد میں سے بیشتر کبھی واپس نہیں آتے جو خوش قسمت ہوتے ہیں وہ یا تو شدید جسمانی اور ذہنی اذیت کے بعد کسی ویران علاقے میں چھوڑ دیے جاتے ہیں یا پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔

‏تنظیم نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بلوچ نسل کشی پر اپنی مجرمانہ خاموشی توڑیں اور ان مظالم کے خلاف مؤثر آواز بلند کریں، اگر اس منظم نسل کشی کو نہ روکا گیا تو یہ نہ صرف بلوچ قوم بلکہ پورے خطے کے لیے تباہ کن نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔