ماہرنگ بلوچ ! پہاڑوں کی تحریر
تحریر: پیردان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اسے پہلی بار کیمرے کی آنکھ نے تب دیکھا جب وہ کوئٹہ کی سڑکوں پر جبری گمشدگی کے شکار اپنے والد کی بازیابی کے لیے روتی بلکتی چیختی اپنی بے بسی پر کراتی نظر آئی۔
تب اس نے پہلی بار بین الاقوامی میڈیا گروپ “الجزیرہ “ کو بتایا کہ ہم بلوچ ہیں اس لیے یہ ریاست ہم پر تشدد کررہی ہے ہمیں مار رہی ہے وہ چا کر بھی اپنے آنسو کو بے ساختہ نکلتے ہوئے روک نہیں پارہی تھی اسکی بچپن گڑیا اور کھلونوں کے بجائے لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے اپنے والد کی تصویر اٹھائے احتجاج میں گزر گئی – دوسری مرتبہ وہ لڑکپن میں تب میڈیا کے سامنے نظر آئی جب دوسری مرتبہ اپنے والد کی جبری گمشدگی کے بعد اسے اپنے والد کی تشدد زدہ میت ملی تھی ۔وہ ایک امریکن صحافی مدیحہ طاہر کو اپنے والد پر تشدد کی کہانی لرزتے کانپے لبوں سے بیان کررہی تھی اپنے والد کی ازذیت گاہوں نے وہ بے خوابیدہ راتوں کے قصے جو اب اسکے وجود کا حصہ بن چکے تھے وہ اپنی آنکھوں سے جھلکتے آنسو لبوں پر ایک مصنوعی مسکراہٹ سمیٹ کر چھپانے کی کوشش کررہی تھی تاکہ وہ کمزور نظر نہ آئے وہ دھاڑیں مار کر رونا ضرور چاہتی تھی مگر اپنے ابا کا وہ سبق اسے بار بار یاد آرہا تھا جہاں ایک شفیق باپ اپنی بیٹی کو بہادر بننے کی تلقین کرتا رہا تھا۔
تیسری مرتبہ وہ اپنے والد کی تصویر اٹھاکر تب نظر آئی جب بلوچ شہداء کا دن منایا جارہا تھا اور پھر نوجوانی کے دن بولان میڈیکل کالج میں پڑھائی کے ساتھ اسٹیوڈنٹس ایکٹوازم میں مصروف ہوگئی طلبا و طالبات کے تعلیمی مسائل بلوچستان میں انسانی حقوق کی سر گرمیاں اور وہ زمانہ جہاں روزانہ ہسپتالوں میں تین سے چار مسخ شدہ لاشوں کی شناخت کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آتی تھی ۔ وقت اپنے رفتار سے کروٹیں بدل ضرور رہا تھا مگر حالات اپنے وطن اپنی سرزمین پر رہنے والوں وارثوں کے لیے مزید تنگ ہوتے جارہے تھے اور پھر ایک دن چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی کو بھی باولے درندے اٹھا کر لے گئے اور پھر وہ میدان میں اتری اس بار وہ اپنے والد پر گزرنے والی وہ درد ناک اور انتہائی تکلیف دہ کہانی کو دوبارہ دہراتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی تھی اور پھر ایک دن مسلسل جدوجہد کے بعد اپنے بھائی ناصر غفار کو تنگ تاریک کال کوٹھڑیوں سے بازیاب کرانے میں کامیاب ہوگئی ۔
اس نے اپنی چھوٹی بہن مہر النسا کے ساتھ اپنے بھائی کی بازیابی کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جہاں چھوٹی بہن اپنے بھائی سے بغل گیر ہوکر کر خوش نظر آرہی تھی اور پھر آہستہ آہستہ ماہ رنگ بلوچ کے نام سے لوگ شناسا ہوتے گئے بلوچستان میں تعلیمی اداروں میں کیمرہ اسکینڈلز پر ساتھی طالب علموں کے ساتھ ماہ رنگ بلوچ احتجاجی مظاہروں میں فرنٹ لائن پر لیڈ کرتی نظر آنے لگی۔ طلبا و طالبات کی تعلیمی مسائل کوٹہ سسٹم اساتذہ مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کرتی نظر آنے لگی۔
کریمہ بلوچ کی شہادت کے بعد بلوچستان میں ہونے والے مظاہروں اور میت کو ریاست کی طرف سے گن پوائنٹ پر پرغمال بنانے اور جنازے میں شرکت کرنے سے روکنے کے لیے بھی آواز اٹھاتی نظر آئی۔ تربت میں ریاستی فورسز کے ہاتھوں دو بچوں کی شہادت اور میت کے ساتھ دھرنا اور بچوں کی میتوں کو کندھے پر اٹھائے جنازہ گاہ میں اپنے شہداء کے لہو سے عہد و پیمان کرتی نظر آئی۔
ماہ رنگ بلوچ نے اپنے بابا کا دیا ہوا سبق حفظ کرلیا تھا جہاں والد اپنی بیٹی کو نصیحت کرکے کہتا ہے کہ اس وطن اس قوم کے لیے ہمیشہ کھڑی رہو یہی تمہاری شناخت ہیں اور انکی وکالت کرتے رہو اور پھر تربت میں ریاست کے ہاتھوں بالاچ بلوچ کی شہادت کے بعد بلوچ ماؤں بہنوں کا ایک چھوٹا سا لشکر لیے کوفہ (اسلام آباد) کی جانب نکل گئی وہ اسلام آباد جہاں بلوچوں کے حصے میں ہمیشہ موت لکھ دیا جاتا رہا ہے وہ اسلام آباد جنہوں نے بلوچ وسائل پر شیش محل بنائے اور بلوچوں کے تن پر کپڑا اور پاؤں تک جوتے اور منہ سے نوالہ چھینا ہے بالاچ اور بابا مری کی دھرتی پر ماہ رنگ بلوچ کا پرتپاک استقبال کیا گیا ہزاروں لوگ اپنی بیٹی کے استقبال میں اپنی آنکھیں بچھائے کھڑے تھے اور پھر بلوچستان کے اس حصے میں استقبال ہوا جو بلوچستان سے کاٹ کر پنجاب کو دیا گیا تھا۔ تا حد نظر عوامی سمندر بلوچستان کی دھول اور مٹی کی خوشبو سونگھنے ماہ رنگ بلوچ کے قافلے پر پھول نچاور کررہے تھے لوگ دیوانہ وار اپنی ماؤں اور بہنوں کا استقبال کررہے تھے۔
تمام ریاستیں ہتھکنڈے عبور کرکے وہ اسلام آباد تک پہنچ گئیں اور پھر حسب روایات اسلام آباد نے ان بلوچ ماؤں اور بہنوں کا استقبال آنسو گیس، واٹر کینن، لاٹھی اور تشدد سے کیا انھیں گرفتار کیا گیا انھیں بسوں میں ڈالا گیا انکے لیے ڈی پورٹ کا لفظ تک ریاستی سطح پر استعمال کیا گیا جو اس بات کی تصدیق تھی کہ ماہ رنگ بلوچ کسی غیر ملک میں داخل ہوچکی تھی چھوٹے بچوں بزرگوں پر بے انتہا تشدد کیا گیا مگر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں اور عالمی دباؤ نے اس ریاست کی غبارے سے طاقت کی ہوا نکال دی تھی
اور ندامت شرمندگی حصے میں آئی۔
ماہ رنگ بلوچ کے دھرنے کی جگہ بلوچستان سے ڈیتھ اسکواڈ کا کمیپ لگایا گیا اسلام آباد میں ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے یہ ریاست بلوچ ماؤں بہنوں کو ڈرانے میں لگ گئی اور پہلی بار ایسا ہوا کہ اسلام آباد کے عام شہریوں نے اپنی ریاست کا مکروہ چہرہ قریب سے دیکھا۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے دوازے بند کردیے گئے بلوچ مظاہرین کو خاردار تاروں کے درمیان بند کردیا گیا جیسے کے جانوروں کو عجائب گھروں میں رکھا جاتا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے اس ریاست کا چہرہ اسلام آباد میں بیٹھ کر دنیا کے سامنے پاش کردیا۔ اور ماہ رنگ بلوچ اپنے ساتھ بلوچ بزرگوں ضعیف ماؤں اور بچوں کا قافلہ لے کر واپس بلوچستان روانہ ہوگئی اس کے لیے بلوچ شاعروں نے نغمے لکھے، لوک داستانوں میں ماہ رنگ بلوچ کے قصیدے پڑھے جانے لگے بلوچی لٹریچر کو ایک اور کردار ملا مشاعروں میں انقلابی نظمیں ماہ رنگ بلوچ کے حصے میں آئی اس بار وہ صرف بوسیدہ لباس پہنے اپنے بچوں کی تصاویر سینوں پر لگائے وہ کمزور مائیں نہیں تھی وہ ایک منظم تحریک بن کر واپس بلوچستان کی طرف روانہ ہوئے اور پھر بلوچستان نے ایسا استقبال کیا کہ اس ریاست کے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئی۔
تب سے ابتک ریاستی حکمران فوج خفیہ ادارے اپنی تمام تر توانائی صرف کرنے تمام مشینری بروکار لانے کے باوجود ماہ رنگ بلوچ اور اس کے ساتھیوں کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ آج ماہ رنگ بلوچ اس ریاست کے قید خانوں میں رہ کر بھی بلوچستان کے طول عرض میں حکمرانی کررہی ہے عالمی سطح پر ریاست پاکستان کی بربریت کو جیل میں بیٹھ کر بھی ایکسپوز کررہی ہے اور اب ماہ رنگ بلوچ جب زندان سے نکلے گی تو یقین جانیے پہلے سے بھی زیادہ عوامی حمایت اور طاقت حاصل کرچکی ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔