بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء سمی دین بلوچ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ مشکے کے علاقے شریکی میں 28 فروری کو پاکستانی فورسز نے ایک گاؤں پر چھاپہ مار کر آٹھ بلوچ نوجوانوں کو ان کے اہلخانہ کے سامنے حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا جن کے بارے میں مختلف انسانی حقوق کے اداروں نے رپورٹ بھی شائع کیا۔
انہوں نے کہا کہ 1 مارچ کو ان کے لواحقین اپنے بچوں کی بازیابی کے لیے مشکے نلی کیمپ پہنچے، جہاں آرمی کیمپ میں موجود میجر نے تسلیم کیا کہ تمام آٹھ نوجوان فورسز کی حراست میں ہیں اور انہیں تفتیش کے بعد آج رہا کر دیا جائے گا۔ تاہم، گزشتہ رات تقریباً تین بجے، ان میں سے چار نوجوان کامران علیم، معراج، مومن اسلم، اور حفیظ کو ایک ویران مقام پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔
سمی دین نے کہا کہ آج صبح جب ان کے اہلِ خانہ اپنے بچوں کی رہائی کے لیے آرمی کیمپ جا رہے تھے، تو راستے میں انہیں ان کے پیاروں کی گولیوں سے لت پت لاشیں ملیں۔ باقی چار نوجوان اب بھی فورسز کی تحویل میں ہیں، لیکن ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
بی وائی سی رہنماء نے کہا کہ ماورائے عدالت قتل دہشت گردی کی سب سے لرزہ خیز شکل ہے جہاں پہلے لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے، انہیں وحشیانہ جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور پھر جعلی مقابلوں میں قتل کر کے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، یہ مظالم کسی بھی مرکزی میڈیا میں نمایاں نہیں کیے جا رہے اور نہ ہی کسی حکمران کے لئے فکر کا باعث ہیں۔