لہولہان کوئٹہ – ٹی بی پی اداریہ

199

لہولہان کوئٹہ

ٹی بی پی اداریہ

کوئٹہ میں مظاہرین پر فائرنگ کرکے کمسن اور نوجوانوں کو شہید کرنا اور دسیوں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرنا بلوچستان میں پاکستان کی حقیقی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ریاستی اداروں نے حسبِ دستور وہی رویہ اپنایا ہے جو ہر بڑے جنگی واقعے کے بعد اپنایا جاتا رہا ہے۔ سخت ریاست کے تصور پر عمل پیرا پاکستان کا بلوچستان میں رویہ کبھی بھی نرم نہیں رہا، اور ہر دور میں جبر سے ہی قومی آوازوں کو دبانے کی پالیسی کارفرما رہی ہے۔

پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر نے سخت ریاست بننے کا اعلان کیا ہے، تاہم بلوچستان میں ریاست کا رویہ بلوچ قوم کے ساتھ کبھی بھی نرم نہیں رہا۔ آغا عبدالکریم سے مذاکرات کے نام پر سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور جیل، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی، اور حیدرآباد سازش کیس میں بلوچ اور پشتون قیادت کو پابندِ سلاسل کرنا، بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی قیادت کی جبری گمشدگیاں اور حراستی قتل—یہ سب ریاستی جبر سے سیاسی مزاحمت کو کچلنے کی کوششوں کا تسلسل ہے، جو پاکستان کی تاریخی پالیسیوں کا حصہ رہا ہے۔

بلوچستان میں مقتدر قوتوں کے معتمدِ خاص، متنازعہ وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی اور انوارالحق کاکڑ جیسے مصنوعی سیاسی کردار سنگین حالات کو مزید بگاڑنے کا سبب بن رہے ہیں، کیونکہ جنگ زدگی اور تشدد ہی انہیں اقتدار میں رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

ریاست کی جانب سے بلوچ مسئلے کو فوج اور پولیس کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے ذریعے طاقت کے زور پر حل کرنے کی پالیسی نے کوئٹہ کو لہولہان کر دیا ہے۔ بلوچ بچوں کی شہادتیں اور ماہ رنگ سمیت دیگر خواتین کی گرفتاریاں بلوچستان میں بھڑکتی آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہیں۔ ماہ رنگ، بیبو، بیبگر بلوچ اور دسیوں دیگر سیاسی کارکنوں کی گرفتاری سے مزاحمتی تحریک رُکے گی نہیں بلکہ اس کا دائرہ مزید وسیع ہوگا۔

بلوچستان کے گلی گلی، کوچہ کوچہ میں مزاحمت کا پرچم بلند کیا جا رہا ہے، اور شہادتوں و گرفتاریوں کے نتیجے میں مزاحمتی تحریک میں شدت آ رہی ہے۔ ریاستی جبر کے ذریعے بلوچ تحریک کو دبانے کی پالیسی نہ ماضی میں کامیاب ہوئی اور نہ ہی اب ہونے کے آثار ہیں، بلکہ شہادتوں اور گرفتاریوں کے نتیجے میں بلوچ مزاحمتی سیاست مزید توانا ہو کر ابھرے گی۔