وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، ماما قدیر بلوچ نے لواحقین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے طاقتور ادارے ملکی سلامتی کے نام پر بلوچستان میں 2000 سے جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو تسلسل سے جاری رکھے ہوئے ہیں اب تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو جبری گمشدگی نشانہ بنایا گیا ہے جو کئی کئی سالوں سے زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں، ہزاروں لاپتہ افراد کو دوران حراست ماورائے آئین قتل کیا گیا ہے اور سینکڑوں کے تعداد میں لاپتہ افراد کو فیک انکاونٹرز میں قتل کیاگیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ملکی اداروں کے اس ماورائے آئین اور انسانیت سوز ظلم یعنی جبری گمشدگیوں کے خلاف لاپتہ افراد کے لواحقین کئی سالوں سے انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں، مختلف حکومتوں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائے گئے کمیشنز کے دروازوں پر ملکی قوانین کے تحت انصاف کے حصول کے لیے دستک دیتے آرہے ہیں اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے ہم 16 سالوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کروانے کے حوالے تسلسل کے ساتھ پرامن اور آئینی طریقے سے جد وجہد کرتے آرہے رہے ہیں اور لاپتہ افراد کے مسئلے کے حوالے سے ہمیں جہاں کئی بلایا گیا ہے ہم وہاں جاکے لاپتہ افراد کے مسئلے پر اپنا موقف بھر انداز میں پیش کیا ہے اور ہمیں ہر بار یہ یقین دھانی کرائی گئی کہ لاپتہ افراد کے بازیابی کو یقینی بنایا جائے گا اور جبری گمشدگی کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کروانے کے حوالے سے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھائی جائے گی لیکن نہ لاپتہ افراد بازیاب ہوئے اور نہ ہی جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو روکا گیا بلکہ دن بہ دن جبری گمشدگیوں میں تیزی لائی جارہی ہے یعنی پاکستان کے حکومتیں سمیت انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے ادارے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کروانے کے حوالے سے بےبس نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر حکومتوں اور انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں کی بےبسی کی وجہ سے اہل بلوچستان کا اعتماد ان تمام اداروں سے اٹھ چکا ہے اس لیے لاپتہ افراد کے لواحقین یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے حکومتوں، عدلیہ اور کمیشنز میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ ملک کے طاقتور اداروں کے حراست سے لاپتہ افراد کو بازیاب اور جبری گمشدگیوں کے روک تھام میں اپنا کردار ادا کرسکے اس لیے اب لاپتہ افراد کے لواحقین ان اداروں سے رجوع کرنے کو وقت ضائع سمجھتے ہیں اور یہی وجہ سے اب بلوچستان سے کسی بھی شخص کو لاپتہ کیا جاتا ہے تو انکے لواحقین اس ایریا کے روڑوں پر بیٹھ کر انصاف مانگنا شروع کیا ہے۔
انکا کہنا تھاکہ لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی کے لیے بلوچستان کے پانچ مختلف علاقوں میں لاپتہ افراد کے لواحقین روڑوں پر احتجاجی دھرنا دے کر انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں احتجاجی دھرنوں میں خواتین اور بچے کثیر تعداد میں شریک ہے۔
انہوں نے کہاکہ پہلا دھرنا کوئٹہ میں مغربی بائی پاس پر ٹکری بہار علی کیھازئی، علی رضا کیھازئی اور بشیر احمد کیھازئی کے لواحقین دے کر احتجاج کررہے ہیں ٹکری بہادر علی کیھازئی، بشر احمد کیھازئی کو سی ڈی ٹی اور دیگر اداروں کے اہلکاروں نے گزشتہ رات بروری روڑ سے انکے گھروں سے ماورائے آئین گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا ہے، دوسرا دھرنا سوراب کے مقام پر جاری ہے جہاں پر 9 لاپتہ افراد کے لواحقین مشترکہ طور پر اپنے لاپتہ پیاروں کی جبری گمشدگی کے خلاف روڑ پر دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
جبکہ لاپتہ کیے گئے نوجوانوں میں مجیب الرحمن بوبک ولد محمد انور کو 9 جنوری 2025 زہری ڈاک رحیم آباد سے، عتیق الرحمن بوبک ولد عبد القادر کو 13 جنوری 2025 ملگزار خضدار سے، محمد حیات مٹازئی ولد محمد عمر کو 18 فروری 2025 زہری ڈاک رحیم آباد، حافظ سراج احمد پندرانی ولد دین محمد کو نورگامہ زہری سے ذاہد احمد ولد عبدالحمید موسیانی زھری کو 10 اکتوبر 2022 کو سردار دودا خان اسٹیڈیم زھری سے، یاسر احمد ولد گل محمد موسیانی زھری کو 5 جون 2023 علاقہ بلبل زھری ضلع خضدار سے زکریا والد سعد اللہ تحصیل زہری ضلع خضدار زکریا پنجگور سے 30 اگست 2021 نوید احمد ولد عبد الرشید موسیانی ساکن بلبل زھری 29 اپریل 2023 کو ویگن سے پیر عمر خضدار کے مقام پر اتارا گیا، محمد شفیق والد محمد حیات تحصیل زہری ضلع خضدار گیدان ھوٹل سے لاپتہ کیا گیا۔
تیسرا دھرنا حب بھوانی کے مقام پر پر جاری ہے جہاں پر لاپتہ یاسر حمید، جنید حمید، نصیر جان، ندیم بلوچ، احسان بلوچ، امین بگٹی بلوچ کے لواحقین روڑ پر دھرنا دے کر احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں انکا مطالبہ ہے کہ انکے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کو فوری طور پر یقینی بنائی جائے۔
چوتھا دھرنا لاپتہ دین جان بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے تربت ٹو کراچی شاہراہِ کو ڈی بلوچ جدگال ڈن کے مقام پر جاری ہے۔
پانچواں دھرنا کوئٹہ ٹو تفتان قومی شاھراہ کردگاپ کے مقام پر جاری ہے جہاں پر سرپرہ قبیلہ کے لوگ اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
پریس کانفرنس میں کہاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین ملک کے طاقتور اداروں کے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف دھرنا دے کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں انکا مطالبہ ہے کہ انکے پیاروں پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اگر وہ بےقصور ہے تو انہیں فوری طور پر رہا کرکے لواحقین کو اذیت سے نجات دلائی جائے ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ صوبائی حکومت ان احتجاجی دھرنوں کا نوٹس لے کر لاپتہ افراد کو ملکی قوانین کے تحت انصاف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا لیکن صوبائی حکومت نے لاپتہ افراد کے احتجاجوں کو روکنے اور ریاستی اداروں کے ماورائے آئین اقدامات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دفعہ 144 نفاذ کردیا اور انتظامیہ کو حکم دیا کہ لاپتہ کے لواحقین کے دھرنوں کو فوری طور پر ختم کیا جائے یعنی لاپتہ افراد کے لواحقین ملکی قوانین کے تحت انصاف فراہم کرنے کے بجائے ان پر طاقت کا استعمال کیا جائے جو یقینا ایک آمرانہ عمل اور ملکی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جسکی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور صوبائی حکومت کو کہنا چاہتے ہیں کہ لاپتہ افراد لاوراث نہیں ہے انکا وارث بلوچ قوم ہے اگر دھرنوں پر بیٹھے لاپتہ افراد کے لواحقین کو ملکی قوانین کے تحت انصاف فراہم کرنے کے بجائے ان پر طاقت کا استعمال کیاگیا تو بلوچستان بھر میں بھرپور احتجاج ریکارڈ کیا جائے گا پھر جو ہوگا اسکا زمہ دار صوبائی حکومت ہوگا۔
مزید کہاکہ ہم تنظیمی سطح پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی احتجاجی دھرنوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ ان احتجاجی دھرنوں میں میں بھرپور شرکت کو یقینی بنائے اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ہر قسم کی تعاون بھی کرے تاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی باحفاظت بازیابی تک اپنے دھرنوں کو جاری رکھ سکے۔
آخر میں ہم لاپتہ افراد کے لواحقین سے گزارش کرتے ہیں کہ اب وہ خاموش نہیں بیٹھے بلکہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے بھرپور احتجاج ریکارڈ کراکے جبری گمشدگیوں کا راستہ روکیں۔