عیدالفطر کے پہلے روز بلوچستان بھر میں احتجاج ، ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور دیگر نے سڑکوں پر نکل کر بی وائی سی قیادت کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر آج عید الفطر کے پہلے روز نماز عید کے بعد بلوچستان کے شہریوں اور دیہاتوں میں خواتین ، بچے، برزگ اور نوجوانوں نے گھروں سے نکل کر بی وائی سی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔
پنجگور ،حب ، خضدار ، قلات ، نوشکی ، خاران ،بلیدہ زامران ، مند ، رخشان ، مستونگ ، ماشکیل ، چاغی ، تمپ ،سوراب، واشک، ڈھاڈر ،قلات ، جھاؤ ، یک مچھ اور دیگر مختلف شہروں ، قصبوں میں لوگ سراپا احتجاج بن گئے ۔
آج بڑے پیمانوں پر مظاہروں کا مقصد بی وائی سی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، رہنما سمی دین جان، بیبو بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، بیبگر بلوچ ، وہاب بلوچ اور دیگر رہنما و کارکنوں کی رہائی سمیت کوئٹہ میں پولیس کی فائرنگ سے بی وائی سی کے جان بحق کارکنان کے لیے انصاف کا مطالبہ تھا ۔
ان مظاہروں میں شریک ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور دیگر نے ہاتھوں میں پلے کارڈز ، بینرز اور گرفتار کی قیادت کی تصویریں اٹھائے پاکستانی مظالم کے خلاف شدید نعرے بازی کی ۔
بڑے پیمانوں میں ہونے والے ان مظاہروں اور دھرنوں میں مقررین نے بی وائی سی کے خلاف کریک ڈاؤن کو فاشزم کہہ کر اس کی سخت مذمت کی اور حکومت سے فوری طور پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت سمی دین جان، بیبو بلوچ، بیبگر کی رہائی اور صبغت اللہ شاہ جی کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی جارہی ہے، انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے آواز بلند کرنے والے رہنماؤں کی گرفتاری اور اغوا شدت پکڑتا جارہا ہے جس کے خلاف پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے اگر کوئی اس پہ خاموش ہے تو صرف حکمران ہیں یا ان کے مفاداتی شراکت ہیں جن کی بلوچستان میں کوئی وقعت نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ ریاست یہ سمجھتی ہے کہ وہ گرفتاریوں، تشدد اور شہادتوں سے بلوچ قومی بقا کی سیاسی مزاحمت کو ختم کرے گا تو یہ اسکی بھول ہے ، بلوچ تاریخ اور نفسیات سے نابلد حکمران تشدد سے ہمیں خاموش نہیں کرسکتے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ آج ریاست خود دیکھ لے کہ ریاستی کریک ڈاؤن کے باوجود بلوچستان ڈر اور خوف سے نکل کر آج انصاف کے لیے سڑکوں پر ہے ۔
مظاہرین نے کہاکہ آج کے بڑے مظاہرے ریاست کے لئے نوشتہ دیوار ہونے چاہئے آج ریاست اخلاقی طور پر شکست کھا چکا ہے ، اور انتہائی پرتشدد ہوچکا ہے لیکن تشدد اور طاقت سے عوامی مزاحمت کو کچلنا ناممکن ہے ۔
مظاہرین نے کہاکہ جب تک بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی روک تھام ، اور لاپتہ افراد کی بازیابی نہیں ہوگا ریاست اس خام خیالی سے نکل جائے کہ وہ بندوق کی نوک پر لواحقین کو خاموش کرسکتا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان نے گزشتہ تیس سالوں سے کوئی خوشی کا تہوار نہیں دیکھا ہے ، آج ہمیں متحد ہوکر بلوچ بقا کی جنگ کو برقرار رکھنا ہوگا ۔
بی وائی سی کے مقامی قیادت نے تنظیم کی اپیل پر عوام کی بڑے تعداد پر مظاہروں میں شر کت کو بلوچ سیاسی مزاحمت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہاکہ جبر اور تشدد سے عوامی تحریکوں کو کچلنا ناممکن ہے ۔انہوں نے کہاکہ بی وائی سی قیادت کو رہا کی جائے ، اور جان بحق کارکنوں کا ایف آئی آر درج کرکے لواحقین کو انصاف فراہم کیا جائے ۔