بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا کہنا ہے کہ آج پانچ منٹ کے لیے غور و فکر کریں اگر بی وائی سی کے رہنماء اور بلوچستان کے دیگر فرزند، جو عرصہ دراز سے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، نہ ہوتے، تو ہمیں دیہاتوں، میدانوں، پہاڑوں اور گلی کوچوں میں مار کر “دہشت گرد” کا ٹھپہ لگا دیا جاتا، اور کوئی بھی ہماری داستان سننے اور سنانے والا نہ ہوتا۔ درحقیقت، بلوچستان کا مسئلہ ہی یہی ظلم و جبر کی داستان ہے، جو ہم ہر جگہ پہنچا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دوسری طرف، ذرا سوچیں میری ساتھی ماہ رنگ، سمی، شاہ جی، بیبگر اور دیگر ذمہ داران، جنہیں دنیا جانتی اور پہچانتی ہے کہ وہ امن کے لیے نکلے ہیں، اُنہیں بھی دہشت گردی کے بین الاقوامی بیانیے سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ لوگ اپنے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں کہ “ہم نے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا ہے” حیرت کی بات ہے کہ (بلوچستان کے باہر) کچھ لوگ ان باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر صبیحہ کا کہنا تھا کہ ذرا سوچیں، اگر ہمارے ساتھی اور بی وائی سی نہ ہوتے، تو بلوچستان میں اس سے بھی زیادہ ریاستی دہشت کا بازار گرم ہو چکا ہوتا۔ کیونکہ ریاست کو اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ ظلم و جبر کر رہی ہو، تو کوئی نہ ہو جو دنیا کو اس ظلم سے آگاہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کو ہمارا واضح پیغام ہے ہم اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔ جب تک تم ظلم کرتے رہو گے، ہم تمہارا ظلم دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے رہیں گے۔