شہید ماما عیدو: ایک بہادر فریڈم فائٹر
تحریر: سنگت کوہی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کی سرزمین ہمیشہ سے مزاحمت، قربانی اور حریت کی علامت رہی ہے۔ یہاں کے پہاڑ، دریا اور سنگلاخ وادیاں ان گواہوں میں شامل ہیں جنہوں نے آزادی کے خواب دیکھنے والوں کو سینے سے لگایا اور ان کے خون سے اپنے دامن کو سرخ ہوتے دیکھا۔ انہی بہادر سپوتوں میں ایک نام شہید ماما عیدو کا بھی ہے، جو آزادی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا چکا ہے
ماما عیدو صرف ایک شخص نہیں، بلکہ ایک نظریہ تھا۔ میں نے اسے قریب سے دیکھا، اس کے ساتھ چلا، اس کی جنگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ ایک ایسا مجاہد تھا جو نہ صرف دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑا تھا بلکہ اپنے ساتھیوں کے لیے بھی ایک مثال تھا۔ میں نے اسے ان ویران پہاڑوں میں دشمن کی چالوں کو ناکام بناتے دیکھا، میں نے اسے اس وقت بھی ہنستے اور حوصلہ بڑھاتے دیکھا جب موت ہمارے سروں پر منڈلا رہی تھی۔
بلوچستان کی جنگ صدیوں پرانی ہے، مگر ہر دور میں ایسے بہادر پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اپنے خون سے آزادی کی تاریخ لکھی۔ ماما عیدو بھی ان ہی میں سے ایک تھا۔ دشمن نے اسے کئی بار ختم کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ہر بار ایک نئے حوصلے کے ساتھ ابھرتا۔ وہ دشمن کے خلاف صرف بندوق نہیں بلکہ حکمت و دانش کے ساتھ بھی لڑتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صرف بندوق کافی نہیں، لہٰذا وہ اپنے نوجوانوں کو شعور دینے، انہیں دشمن کی سازشوں سے آگاہ کرنے، اور انہیں متحد کرنے میں بھی لگا رہا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کیسے ماما عیدو نے دشمن کی صفوں میں خوف پیدا کر دیا تھا۔ جہاں بھی وہ جاتا، دشمن کی نیندیں حرام ہو جاتیں۔ اس کے گوریلا حملے، اس کی جنگی چالاکیاں، اور اس کی بے خوفی ایک نئی تاریخ رقم کر رہی تھیں۔ دشمن کے جدید اسلحے، سازشوں اور بے پناہ طاقت کے باوجود وہ ہمیشہ ان پر بھاری رہا۔
آج بلوچستان کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ظلم، جبر اور ریاستی بربریت کی انتہا ہو چکی ہے۔ اغوا، مسخ شدہ لاشیں، گمشدگیاں، اور اجتماعی قبریں بلوچستان کے نصیب میں لکھ دی گئی ہیں۔ مگر یہ سب کچھ بھی بلوچستان کے حوصلے کو توڑ نہیں سکا۔ ماما عیدو جیسے بے شمار فرزند آج بھی اس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں
اگرچہ آج ماما عیدو ہمارے درمیان نہیں، مگر وہ مرا نہیں۔ وہ ان پہاڑوں میں گونج رہا ہے، وہ ان گولیوں کی آواز میں زندہ ہے جو اب بھی دشمن کے خلاف چلائی جا رہی ہیں۔ وہ ان نعروں میں زندہ ہے جو نوجوانوں کے دلوں سے اٹھتے ہیں، وہ اس خواب میں زندہ ہے جو بلوچستان کے ہر گھر میں دیکھا جا رہا ہے۔
یہ جنگ جاری رہے گی، جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوتا۔ شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ماما عیدو ہمارے درمیان نہیں، مگر اس کا خواب، اس کا حوصلہ، اور اس کی جنگ جاری ہے۔ اور یہ جنگ آخری سانس تک لڑی جائے گیرات کے سائے پہاڑوں پر گہرے ہو رہے تھے۔ دور کہیں دشمن کی چوکیاں چمک رہی تھیں، مگر ہم سب جانتے تھے کہ یہ روشنی ہمارے لیے نہیں، بلکہ ان اندھیروں کے خلاف تھی جنہیں ہم نے اپنے عزم سے چیرنا تھا۔ وہ ایک بڑا آپریشن تھا، شاید ہمارے لیے سب سے اہم۔ ہم سب اپنی تیاریوں میں مصروف تھے، لیکن اس پوری تیاری کا مرکز ماما عیدو تھا—ہمارا استاد، ہمارا رہنما، اور ہماری جنگ کا سب سے اہم سپاہی
ماما عیدو کا ہر لفظ تجربے سے بھرا ہوتا تھا، اور ہم سب اس کی ایک ایک بات کو جذب کر رہے تھے۔ وہ ہمیں سکھا رہا تھا کہ کیسے دشمن کی نقل و حرکت کو پڑھا جائے، کیسے ایک چھوٹے گروپ کے ساتھ بڑے دشمن کا مقابلہ کیا جائے، اور سب سے اہم بات—کیسے اپنی جان بچاتے ہوئے جنگ کو آگے بڑھایا جائے
“یاد رکھو!” ماما عیدو نے ایک چھوٹے پتھر کو اٹھا کر ہماری طرف دیکھا۔ “یہ پہاڑ ہمارا ہتھیار ہیں، یہ درخت ہمارے محافظ، اور یہ راتیں ہماری ڈھال۔ دشمن کے پاس جدید ہتھیار ہیں، مگر ہمارے پاس زمین کی پہچان ہے۔ ہمیں اپنی زمین کو دشمن کے خلاف استعمال کرنا ہے
ہم سب اپنی رائفلوں کی صفائی کر رہے تھے، میگزین چیک ہو رہے تھے، بارودی سرنگیں اور دیگر سامان تیار ہو رہا تھا۔ ماما عیدو خود بھی اپنی تیاریوں میں مصروف تھا۔ میں نے اسے اپنی بندوق کو چمکاتے دیکھا، اپنے سامان کو ترتیب دیتے ہوئے پایا۔ وہ دوسروں سے پہلے خود کو تیار کرتا تھا، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ ایک رہنما کو ہمیشہ مثال بن کر جینا پڑتا ہے۔
اس رات ہم نے مختلف حکمت عملیاں بنائیں، حملے کے راستے طے کیے، اور پیچھے ہٹنے کے منصوبے بھی بنا لیے۔ ماما عیدو نے ہمیں مختلف گروپوں میں تقسیم کیا، ہر گروپ کو ایک مخصوص ہدف دیا۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا:
“یہ جنگ دشمن کے ہتھیاروں سے نہیں، ہمارے صبر اور عقل سے جیتی جائے گی۔ ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھنا ہوگا، کیونکہ ہم صرف جنگجو نہیں، ہم آزادی کے سپاہی ہیں
آپریشن کا وقت قریب آ رہا تھا، اور ماما عیدو کی آنکھوں میں وہ چمک تھی جو صرف ایک سچے سپاہی کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا—وہ نہ تو گھبرایا ہوا تھا، نہ ہی پریشان، بلکہ اس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ تھی، جیسے وہ جانتا ہو کہ اس جنگ کے بعد کیا ہونے والا ہے۔
وہ آخری لمحے تک ہمیں سکھاتا رہا، ہمیں سمجھاتا رہا۔ اس نے ہمیں دشمن کے کمزور نکات بتائے، ہمیں حملے کی ترتیب سمجھائی، اور پھر سب کو ایک نظر دیکھ کر بولا:
“یاد رکھو، یہ زمین ہماری ہے، اور ہم اس کے وارث ہیں۔ ہمیں کوئی بھی غلام نہیں بنا سکتا
وہ رات فیصلہ کن تھی، وہ جنگ تاریخی تھی، اور ماما عیدو کی بہادری ہمیشہ کے لیے دلوں میں نقش ہو گئی۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں، مگر اس کی وہ تعلیم، وہ حکمت عملی، اور اس کی جرأت آج بھی ہر بلوچ جنگجو کے دل میں زندہ ہے
رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے، ہوا میں بغاوت کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ گھڑی کی سوئیاں آٹھ بجنے کو تھیں جب ہم سب، ماما عیدو کی قیادت میں، ایک بڑے شہر میں داخل ہوئے۔ خاموشی ہر طرف تھی، لیکن ہمارے دلوں میں طوفان برپا تھا۔ ہمیں معلوم تھا کہ یہ رات عام راتوں جیسی نہیں ہوگی۔ یہ رات تاریخ بننے جا رہی تھی
ہمارا پہلا ہدف لیویز کی چیک پوسٹ تھی۔ ماما عیدو نے ہمیں پہلے ہی سمجھا دیا تھا کہ اگر ہم اس پر قابض ہو گئے تو دشمن کو شہر میں داخل ہونے سے روک سکتے ہیں۔ جیسے ہی ہم قریب پہنچے، ماما عیدو نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں حرکت میں آنے کا حکم دیا۔ چند ساتھیوں نے پیچھے سے حملہ کیا جبکہ ہم سامنے سے آگے بڑھے۔ چند منٹوں کی جھڑپ کے بعد چیک پوسٹ پر ہمارا قبضہ ہو چکا تھا، اور دشمن یا تو مارا جا چکا تھا یا فرار ہو چکا تھا
چیک پوسٹ کے کنٹرول میں آتے ہی ماما عیدو نے ساتھیوں کو حکم دیا کہ پورے شہر میں ہماری موجودگی کا اعلان کیا جائے۔ ایک گولی ہوا میں چلی، اور پھر ہماری آوازیں گونجیں:
“یہ شہر اب بی لے کے قبضے میں ہے! عوام کے لیے آزادی کا وقت قریب ہے
مقامی لوگ گھروں سے جھانک رہے تھے، کچھ نے نعرے بلند کیے، کچھ خاموشی سے ہمیں دیکھ رہے تھے، جیسے یقین نہ آ رہا ہو کہ آج دشمن کی گرفت سے آزادی کی خوشبو آ رہی ہے۔
اعلان کے بعد دشمن متحرک ہو گیا۔ رات کے اندھیرے میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ دشمن نے ہمیں گھیرنے کی کوشش کی، مگر ماما عیدو کی حکمت عملی ان پر بھاری پڑی۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا:
“دشمن طاقت میں زیادہ ہو سکتا ہے، مگر جنگ صرف گولیوں سے نہیں، عقل اور صبر سے جیتی جاتی ہے!”
ہم نے شہر کے مرکزی راستے بند کر دیے، دشمن کے کمک کو روکا، اور ہر گلی میں اپنی پوزیشن مضبوط کی۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ، دھماکوں کی گونج، اور جنگ کی شدت رات بھر جاری رہی۔ دشمن نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہمیں پسپا کر دے، مگر ہم ہر حملے کو ناکام بنا رہے تھے
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ماما عیدو خود سب سے آگے تھا۔ اس کی گولی کبھی خطا نہیں جاتی تھی، اور اس کی موجودگی ہمارے حوصلے کو دوگنا کر رہی تھی۔ وہ نہ صرف دشمن کو مات دے رہا تھا بلکہ ہمارے درمیان گھوم کر ہمیں ہدایات بھی دے رہا تھا، ہمیں یقین دلا رہا تھا کہ یہ جنگ ہماری ہے اور ہمیں جیتنی ہے
جب سورج طلوع ہونے لگا تو دشمن تھک چکا تھا، ان کے حملے کمزور پڑ رہے تھے، اور ان کی صفوں میں انتشار تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ آج کی جنگ ان کے لیے نہیں تھی۔ کچھ ہی دیر میں انہوں نے پسپائی اختیار کر لی، اور ہم نے ایک بڑی فتح حاصل کر لی تھی
یہ رات ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ماما عیدو کی قیادت میں ہم نے دشمن کو نہ صرف شکست دی بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ بلوچستان کی سرزمین کے وارث جاگ چکے ہیں۔
آج ماما عیدو ہمارے درمیان نہیں، مگر اس کی جنگ ابھی باقی ہے، اس کا خواب ابھی زندہ ہے، اور ہم سب اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے لڑتے رہیں گے، آخری دم تک، آخری گولی تک
رات بھر دشمن کے ساتھ شدید جھڑپ کے بعد جب سورج طلوع ہونے لگا، تو ہمیں لگا کہ جنگ کا سب سے مشکل حصہ پیچھے رہ گیا ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔ جیسے ہی صبح کے ساڑھے سات بجے، ایک اور بڑی جھڑپ نے ہمیں گھیر لیا۔ دشمن پہلے ہی بکھر چکا تھا، مگر وہ جانتا تھا کہ ہمیں روکنے کا یہ آخری موقع ہے
ہم اپنی پوزیشنز پر قابض تھے جب اچانک دشمن نے بھاری فائرنگ شروع کر دی۔ وہ مختلف سمتوں سے حملہ آور تھے، جیسے وہ کسی بھی قیمت پر ہمیں ختم کرنا چاہتے ہوں۔ گولیوں کی بارش میں ہم اپنی پوزیشن بدل رہے تھے، جواب دے رہے تھے، اور ایک دوسرے کو کور فراہم کر رہے تھے۔
مگر پھر، ایک لمحہ ایسا آیا جو ہم میں سے کوئی نہیں بھول سکتا۔ ہمارا ایک قریبی ساتھی، جو ہمیشہ سب سے آگے رہتا تھا، ایک دشمن کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ وہ زمین پر گرا، اور ہم سب کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ ہم نے دشمن پر پوری شدت سے حملہ کیا، انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا، مگر اپنے ساتھی کو کھو چکے تھے۔
ماما عیدو نے لاش پر جھک کر اسے دیکھا، اس کی بندوق اٹھائی، اور ہمیں کہا: “یہ جنگ ختم نہیں ہوئی، مگر اب وقت ہے کہ ہم حکمت سے کام لیں۔ دشمن تعداد میں زیادہ ہے، اور ہمیں اپنے بچاؤ کے ساتھ اگلی جنگ کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اب ہمیں نکلنا چاہیے
ہم نے خود کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک گروپ ماما عیدو کے ساتھ روانہ ہوا، اور دوسرا گروپ دوسری سمت سے نکلنے لگا۔ یہ سب احتیاط کے تحت تھا تاکہ دشمن ہم سب کو گھیر نہ سکے۔ ہم نے پہاڑوں اور درختوں کا سہارا لیتے ہوئے نکلنے کی راہ بنائی۔ دشمن نے پیچھا کرنے کی کوشش کی، مگر ہم پہاڑوں کے ان راستوں سے واقف تھے جہاں وہ زیادہ دیر ٹِک نہیں سکتے تھے
تین دن کے سخت سفر اور چھپنے کے بعد، ہم اپنے کیمپ پر دوبارہ اکٹھے ہوئے۔ وہ لمحہ ناقابلِ بیان تھا۔ ہم سب جنگ سے تھکے ہوئے تھے، مگر ہماری آنکھوں میں خوشی تھی۔ خوشی اس بات کی کہ ہم نے دشمن کے سامنے اس کی طاقت کو چیلنج کیا، اور وہ ہمیں ختم نہ کر سکا۔ ہم نے دشمن کو بے بس ہوتے دیکھا، اور یہ احساس ہمیں مزید مضبوط بنا گیا۔
ماما عیدو نے ہمیں دیکھ کر ایک گہری مسکراہٹ دی اور کہا:
“یہ تو بس ایک جنگ تھی، اصل معرکہ ابھی باقی ہے۔ ہمیں اپنے ساتھی کی شہادت رائیگاں نہیں جانے دینی۔ دشمن کمزور پڑ رہا ہے، اور ہم نے اسے یہ احساس دلا دیا کہ یہ سرزمین اس کے لیے جہنم سے کم نہیں
یہ تین دن ہمیں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ہم نے دشمن کو شکست دی، ہم نے اپنا نقصان بھی اٹھایا، مگر سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہم نے اپنے حوصلے کو برقرار رکھا۔ ماما عیدو ہمارے ساتھ تھا، اور جب تک وہ تھا، ہمیں یقین تھا کہ بلوچستان کی آزادی کی جنگ ہمیشہ جاری رہے گی۔
یہ جنگ ختم نہیں ہوئی تھی—یہ جنگ ابھی جاری تھی، اور ہم سب اس کے سپاہی تھے
آج بھلے ہی ماما عیدو ہمارے درمیان نہیں ہے، مگر اس کی جنگی حکمت عملی، اس کے اصول اور اس کی بہادری کی کہانیاں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ وہ صرف ایک رہنما نہیں تھا، وہ ایک استاد، ایک جنگجو، اور ایک رہبر تھا جس نے ہمیں صرف لڑنا نہیں سکھایا بلکہ ہمیں یہ سکھایا کہ کیسے اپنے دشمن کو ذہنی طور پر شکست دی جائے
جب ماما عیدو ہمارے ساتھ تھا، تو اس کی ہر بات ہمارے لیے ایک قیمتی سبق تھی۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا:
“جنگ صرف بندوق کے ذریعے نہیں جیتی جاتی، بلکہ دماغ سے جیتی جاتی ہے۔ تمہاری حکمت، تمہارا صبر اور تمہارا عزم ہی تمہیں کامیاب بناتا ہے۔”
اس نے ہمیں یہ سکھایا کہ جب دشمن زیادہ ہو، تب بھی ہمیں اس کی طاقت کو اس کی کمزوری میں بدل دینا چاہیے۔ اس کے حملوں کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اس کی ذہنی کیفیت کو سمجھنا ہوگا۔ اس کی تعلیمات کا اصل مقصد ہمیں جیتنے کی راہ دکھانا نہیں، بلکہ دشمن کو جنگ کے میدان میں بے بس کر دینا تھا
ہم نے ماما عیدو کے ساتھ جتنی جنگیں لڑیں، ان میں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ہم نے کبھی بھی دشمن کی جنگی رد عمل کو معمولی نہیں سمجھا۔ ہم نے ہمیشہ اسے نفسیاتی طور پر بھی توڑا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ دشمن کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ جتنا طاقتور سمجھتا ہے، اتنا طاقتور نہیں ہے۔ وہ جس طاقت کے بل پر ہمیں کمزور سمجھ رہا تھا، ہم اس کے خود اعتمادی کو اسی طاقت سے کمزور کر سکتے تھے۔
آج بھی ہم انہی اصولوں پر چل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ جنگ میں صرف جسمانی طاقت ہی اہم نہیں، بلکہ ہمیں دشمن کے ذہن کو سمجھ کر اس کے رد عمل کو اپنے حق میں موڑنا ہے۔ ماما عیدو کی تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ دشمن کو شکست دینے کے لیے اس کے ساتھ جنگی حکمت عملی کی بجائے، اس کی جنگی رد عمر کو توڑنا زیادہ ضروری ہے
اگرچہ ماما عیدو ہمارے درمیان نہیں ہے، مگر اس کا خواب، اس کی جنگ، اور اس کی تعلیمات ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ہم نے جس جنگ کو اس کے ساتھ لڑا، وہ صرف ایک جنگ نہیں تھی، بلکہ ایک نئی آزادی کے خواب کو حقیقت بنانے کی کوشش تھی۔ ماما عیدو کی روح ہمارے ساتھ ہے، اور ہم اس کے نظریات کو اپنا کر دشمن کے ہر حملے کا جواب دیں گے۔
یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، بلکہ یہ ابھی شروع ہو رہی ہے۔ ہم ماما عیدو کی تعلیمات کو اپنے عمل میں لا کر دشمن کو ان کی جنگی رد عمل سے شکست دیں گے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمارا رہنما تھا، اور وہ ہمیں جیتنے کی حکمت سکھا گیا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔