شہید غلام رسول بلوچ عرف منشی عیدو ۔ نوہان بلوچ

210

شہید غلام رسول بلوچ عرف منشی عیدو
تحریر: نوہان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

شہید غلام رسول عرف منشی عیدو کا تعلق مرستان کے علاقے کوہلو برگ شم سے تھا۔ آپ فیض محمد کے گھر پیدا ہوئے اور بچپن سے ہی مرستان میں قابض ریاست کے ظلم و ستم سے آگاہ تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بارکھان کے علاقے رڑکن سے حاصل کی۔ بچپن سے ہی شہید کو غلامی کا احساس ہو چکا تھا کیونکہ شہید غلام رسول عرف منشی عیدو شہید فدائی باز محمد عرف درویش بلوچ کے چھوٹے بھائی تھے اور شہید نے 2011 سے ہی بلوچ قومی تحریک میں عملاً جدوجہد شروع کر دی۔

شہید غلام رسول بلوچ ایک خوش مزاج، نرم دل اور بہادر سنگت تھے۔ شہید ایک بے لوث سیاسی فکر کے مالک تھے اور عوام کے اندر کافی پزیر تھے۔ شہید ایک زانت کار سرمچار تھے جنہوں نے بلوچ قومی تحریک میں لٹریچر میں بھی اپنی خدمات سر انجام دیں۔ شہید ایک کتاب دوست سنگت تھے اور ہمیشہ فارغ اوقات میں کتاب کا مطالعہ کرتے رہتے۔ اکثر اوتاخ میں ساتھیوں کیساتھ سیاسی بحث و مباحثہ کرتے رہتے۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے شہید سے بہت ساری چیزیں سیکھیں۔ میرا شہید سے پہلی دفعہ رابطہ 2024 میں ہوا جب انہوں نے کہا وہ حالیہ محاذ میں اپنی خدمات سرانجام دینا چاہتے ہیں۔ آخر کار شہید کوہلو، بارکھان محاز پہنچے جہاں ان کی بے حد ضرورت تھی اور ان کی دن رات انتھک جدوجہد نے کوہلو بارکھان محاز کو تحریک کیلئے فائدہ مند بنایا۔ کھیتران، بزدار، مری بلوچ عوام میں شہید نے اپنی ولولہ انگیز قومی تحریک کی پیغام رسائی کی اور قوم کو مطمئن کیا۔ کوہلو، بارکھان، راڑاشم جہاں قبائل آئے روز خانہ جنگی کا شکار تھے شہید کی کاوشوں سے علاقے میں کافی حد تک امن آیا اور آپس میں جنگ کرنے کی بجائے قوم کی سوچ دشمن قابض ریاست کی طرف مرغوب ہوئی۔
شہید غلام رسول کے ساتھ میں نے 6 ماہ کا وقت گزارا جس میں شہید نے ریاست کو ایسی کار ضربیں لگائیں جن کی وجہ سے کوہلو بارکھان میں دشمن کی نیندیں حرام ہوئیں۔ آپ انتہائی مخلص سرمچار تھے باقی سنگت کے ساتھ انتہائی نرم رویہ رکھتے تھے اور ہمیشہ یہی بات دہراتے کہ اگر میں شہید ہو گیا تو یہ ورنا اس تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

شہید کی نیک دلی نے شہید کو اپنی شہادت سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ وہ شہید ہونے والے ہیں۔ 23 فروری کی صبح جب ہم اٹھے تو شہید نے مجھے اپنا خواب بیان فرمایا کہ وہ دیکھتے ہیں کہ وہ شہید فدائی بازمحمد عرف درویش کے ساتھ بلوچی حال احوال کر رہے ہیں اور بے انتہا خوش ہیں۔ بس یہی خواب بیان کرنے کے چند گھنٹے بعد قابض فوج آپریشن کی غرض سے گلوشم کی جگہ آکر رکتی ہے کہ انار کھڈ میں گھس سکے تو شہید نے اپنے ہمراہ 4 سنگت کئے اور دشمن کے ساتھ دو بدو لڑائی کیلئے اوتاخ سے نکل پڑے، باقی سنگت دوسری طرف سے قابض فوج کو گھیرا دینے کیلئے نکلے۔ قابض فوج گلو شم کے مقام پر سرمچاروں کےدو اطراف گھیرے میں تھی اور جنگ دوبدو شروع ہو چکی تھی اور دشمن کی لاشیں گر رہی تھیں، شہید غلام رسول بلوچ جوان مردی کے ساتھ مورچہ زن ہو کے دشمن کو جہنم واصل کر رہے تھے کہ نزدیک سے ایک بلوچ خاتون اپنے مال مویشی کو نکالنے کی خاطر نمودار ہوئی جس پر شہید نے جلدی سے اس کو وہاں سے دور جانے کی ہدایت کی اور اسی دوران قابض دشمن کی گولی سے غلام رسول عرف منشی عیدو اس دھرتی پر شہید ہوگئے اور ان کے خون سے گلوشم سے لیکر انار کھڈ تک دھرتی دلہن کی طرح بن گئی۔ انار کھڈ زیارت نے شہید کو اپنے آغوش میں لیا اور شہید سرمچاروں کی سلامی کے ساتھ سپرد گل زمین ہوئے۔ اس کے علاوہ شہید نے بولان، کاہان، ناگاھی محاز میں زیادہ وقت گزارا تھا، ابتدائی تعلیم کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کیلئے کسی بھی شہر جانے سے قاصر تھے تو انہوں نے بولان میں ہی انگریزی تعلیم حاصل کی۔ آپ کاہان محاز بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں آپ جیسے سرمچاروں کی بدولت ہی دشمن قابض فوج کاہان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ آپریشن ھیروف کے دوران آپ ناگاھی محاز پر تھے جہاں آپ نے جوان مردی کیساتھ دشمن پر کاری ضربیں لگائیں۔

شہید غلام رسول بلوچ کی کوہلو بارکھان محاز میں بے انتہا ضرورت تھی لیکن پھر بھی وہ اپنے حصہ کا کام اس چھوٹے سے وقت میں کر گئے۔ آپ کے خاندان نے بلوچ قومی تحریک کیلئے تمام نرینہ اس مادر وطن کیلئے نچھاور کر دیے۔ شہید پوری قوم اور بالخصوص براس کیلئے ایک اہم اثاثہ تھے انشاءاللہ شہید کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔